خون میں نہائے فلسطینی بچے عید منائیں گے؟

570

ماہِ رمضان نیکیوں کا موسم ِ بہار کہلاتا ہے اسی نسبت سے عالمی اخبارات یہ خبر دے رہے ہیں کہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے روضہ رسول پر حاضری دی ہے۔ یہ اطلاع ہے کہ محمد بن سلمان روضہ رسول پہ حاضری کے دوران انتہائی سنجیدہ نظر آرہے تھے۔ محمد بن سلمان کے عمرے کی ادائیگی کے بعد روایت کے مطابق دیگر ممالک کے سربراہان کی بھی بہت بڑی تعداد عمرے کے لیے سعودی عرب پہنچ رہی ہے۔ اس دوران ایک افطار پارٹی کا سعودی حکومت کی جانب سے اہتمام بھی ہو گا جس میں پاکستان سے حکمرانوں کی شرکت لازمی ہے۔ ہمارے حکمران اور اشرافیہ روضہ رسول پر حاضری لگا کر یہ ثابت کرے گی کہ وہ نبی کریمؐ کے غلام ہیں۔ اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ تقریباً 52 لاکھ مسلمان اس وقت عمرے کے لیے سعودی عرب پہنچ چکے ہیں اور نیکیوں کے موسم بہار کی بہاریں لوٹنے میں مصروف ہیں۔ یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ سعودی عرب سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر اُمت رسول کو مولی گاجر سے بھی زیادہ بے دردی سے کاٹا اور آگ اور خون میں نہلا کر اور بھوک سے شہید کیا جارہا ہے۔ غزہ اور رفح میں چھوٹے چھوٹے بچے، عورتیں اور مرد رمضان کے مہینے میں روزہ بھی رکھ رہے ہیں۔ لیکن ان کو سحر اور افطار کے لیے چند کھجوریں تو دور کنار ایک گلاس پانی بھی میسر نہیں ہے۔ میں کوئی فتویٰ تو نہیں دے سکتا لیکن پوچھنا یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ کیا غزہ اور رفح میں روزآنہ 100سے زائد فلسطینی افطاری کے دوران اسرائیل بمباری سے شہید ہوں تو چند کلو میٹر پر عمرے، روزے قبول ہو جائیں گے؟

یہ تو ہم کو معلوم ہے کہ مسلمان دنیا میں روزہ رکھنے اور عید منانے والی واحد قوم نہیں ہے ویٹی کن سٹی میں بھی دسمبر میں یہی صورتحال ہوتی ہے لیکن یہ کافر دسمبر سے غزہ اور رفح کے لوگوںکی فکر میں رفح کراسنگ پر موجود ہیں۔ سوال یہ ہے ان کو عید منانے حق نہیں ہے؟ یہ دسمبر کی سردی میں وہاں فلسطینیوں کا علاج کر رہے تھے۔ 15دن قبل معالجین کی عالمی تنظیم ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) کے سیکرٹری جنرل کرسٹوفر لاک ائر نے کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ رفح میں زمینی حملے سے بڑے جانی نقصان ہو رہا ہے۔ غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے کونسل میں پیش کردہ قراردادوں کو امریکا کی جانب سے متواتر ویٹو کرنے سے انسانی جانوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ انہوں نے امریکا کی جانب سے غزہ کے بارے میں ایک نئی قرارداد کے مسودے کو انتہائی گمراہ کن قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کونسل کو ایسی کوئی بھی قرارداد مسترد کر دینی چاہیے جس سے امدادی کوششوں میں مزید رکاوٹ پیدا ہو اور غزہ، رفح میں تشدد اور بڑے پیمانے پر مظالم جاری رہیں۔

یہ بھی ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ طبی مراکز پر متواتر حملے کرتے ہوئے اسرائیل یہ دعویٰ کرتا ہے کہ حماس اسپتالوں کو جنگی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے لیکن اس دعوے کا کوئی مصدقہ ثبوت نہیں ملا۔ اس دوران ایم ایس ایف کے عملے کا رکن اور اس کے اہلخانہ زخمی ہو رہے ہیں جبکہ متحارب فریقین کو اس جگہ ان کی موجودگی کے بارے میں پیشگی بتایا جا چکا تھا اور وہاں ایم ایس ایف کا جھنڈا بھی موجود تھا۔ حملے کے بعد بعض لوگ جلتی ہوئی عمارت میں پھنس جاتے ہیں اور فائرنگ کے باعث ایمبولینس گاڑیوں کو موقع پر پہنچنے میں رکاوٹیں پیش آئیں۔ انہوں نے بتایا کہ اسرائیل کی جانب سے اسپتالوں پر حملے، ایم ایس ایف کی گاڑیوں کو تباہ کرنا اور اس کے قافلوں کو نشانہ بنانا معمول بن چکا ہے۔ انہوں نے ایسے حملوں کو دانستہ یا نااہلی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ غزہ میں ان کے ساتھیوں کو خدشہ ہے کہ وہ کونسل میں بات کر رہے ہیں تو کل انہیں سزا دی جائے گی۔ انسانی امداد کی فراہمی کے حوالے سے قوانین اور اصول دنیا میںآج اپنے معنی کھو رہے ہیں۔

اول تو اسلامی حکومتوں کی جانب سے سرکاری سطح پرامد اد کم کم ہی نظر آرہی ہے لیکن اسرائیل اقوام متحدہ غزہ اور رفح میں امدادی کارکنوں کو ہلاک اور زخمی کر رہا ہے اور ایسے میں وہاں امدادی اقدامات محض سراب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لوگوں کو اتفاقی طور پر اور موقع ملنے پر ہی کچھ مدد پہنچتی ہے اور اس کی مقدار بھی انتہائی ناکافی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل شہریوں کو جنگجوؤں بتا رہی ہے ان حالات میں امداد کی فراہمی کیسے ممکن ہے؟ غزہ اور رفح میں یہ بات عام ہے کہ اسپتال میں موجود زخمی بچہ کے خاندان میں کوئی زندہ نہیں رہا ہے۔ اگر اسپتالوں پر بھی کار پیٹنگ بمباری کی جائے تو ایسے بچے کہاں جائیں۔

یہ حالات تو اپنی جگہ لیکن سوال یہ ہے کہ اسلام میں مسلمان بھائی کے لیے کیا حق رکھا گیا ہے۔ ایسا بھی کبھی ہوتا ہے کہ دوسرے بھائی اور اسے کی بیوی بچے خون میں نہاتا دیکھ کر بھی ہم صرف مذمت سے کام چلانے کی کوشش کرتے رہیں۔ 70برسوں سے فلسطینیوں کا دکھ کی نہ ختم ہونے سیاہ رات کا سلسلہ جاری ہے اور اس کا مسلمان بھائی پرسکون رہے یہ سب کچھ کتنا ممکن ہو سکتا ہے، کیا مسلمان ممالک مل کر آزادی کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھائیں گے، فلسطین کے ان مظلوم لوگوں کا کیا قصور ہے۔ ہم اور ہمارا خاندان اپنے بچوں کے لیے عید کے کپڑے تیاری کر رہے اور دوسری جانب فلسطینیوں کے بچوں کفن بھی میسر نہیں ہے۔ اس گھپ اندھیرے میں بھی صرف عالم ِ اسلام کے حکمران ہی نہیںعام مسلمان بھی بے گورکفن فلسطینی بچوں کو دن کے کسی پہر بس یہ کہہ کر اپنی ذمے داری سے دستبرار ہو جاتے ہیں کہ فلسطینیوں پر ظلم ہو رہا ہے اللہ اسرائیل کو برباد کرے۔

مظلوم فلسطینیوں پر فائرنگ اور پرتشدد ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ بیت المقدس میں رمضان المبارک کے دوران چالیس ہزار مسلمان عبادت کے لیے موجود ہوتے ہیں جبکہ لیلتہ القدر کے موقع پر یہ تعداد اسی ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان ہوتی ہے، اسرائیل ماضی میں بھی مسلمانوں کے عبادت کرتے پرامن اجتماع میں فائرنگ اور درندگی کے ساتھ ظلم و ستم کرتا ہے۔ وہاں موجود لوگوں کا بے دردی سے خون بہایا جاتا ہے، قبلہ اوّل کی بے حرمتی کے جذباتی مناظر دیکھے گئے۔

اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہم تک تو صحیح خبریں بھی نہیں پہنچی کہ اصل حقیقت میں کتنے لوگ زخمی اور شہید ہوئے، مسلمانوں کو ایک قوم نہیں بلکہ ایک اُمت کہا گیا ہے، مسلمانوں کی اس امت کے آج ساٹھ سے زائد مسلم ممالک جن کے پاس81لاکھ طاقتور فوج جدید ہتھیار اور معاشی طور پر مضبوط ممالک بھی موجود ہیں تاہم فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر خاموشی کیوں ہیں؟ ہے کوئی مسلمانوں کا پرسانِ حال کہ بتائے کہ خون میں نہائے فلسطینی بچوں کو عید کے کپڑے کون پہنائے گا۔