جدوجہد آزادی کا گمنام ہیرو

375

ہیروز اپنی قوم، اپنے معاشروں کو زندہ رکھتے ہیں۔ یہ عزم اور جدوجہد کے منارۂ نور ہوتے ہیں۔ زندہ قومیں، انہیں گمنامی کے اندھیروں میں دھکیلنے کے بجائے اپنے بچوں کو، نئی نسل کو ان کی بہادری اور دلیری کے قصے سنا کر بڑا کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ہیرو جن کا نام روشن حروف سے جگمگانا چاہیے تھا انہیں تاریخ کے اوراق میں جان بوجھ کر گم کیا جا رہا ہے اور وہ نام ہے سندھ کے شیر سورہیہ بادشاہ پیر پگارا کا۔ پیر پگارا صبغت اللہ شاہ ثانی المعروف‘سورہیہ بادشاہ نہ صرف ایک بہادر جنگجو سپاہی تھے بلکہ ایک سچے محب وطن بھی تھے۔ آپ کے خاندان اور حُر تحریک نے نا صرف انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگیں لڑی بلکہ 1965 اور 1971 جنگ میں بھی سندھ کے محاذ پر پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ برطانوی راج میں حُر تحریک نے کئی بار آزادی کا پرچم لہرایا۔ پیر پگارا خاندان اور ان کے مریدین حروں نے جس بہادری سے انگریزوں کے خلاف علم حق و آزادی بلند کیا اس کی نظیر نہیں ملتی۔ حر تحریک کا نعرہ، جو سورہیہ بادشاہ نے تیار کیا تھا، ’’وطن یا کفن، آزادی یا موت‘‘، لوگوں کے جذبات، اپنے وطن اور قومی شناخت سے ان کی محبت کی عکاسی کرتا تھا۔ سورہیہ بادشاہ کی قیات میں مرد و خواتین پر مشتمل ان کے ہزاروں پیروکاروں نے برطانوی راج کے خلاف بغاوت کی اور سندھ سے غیر ملکی حکمرانوں کو نکال باہر کرنے کی جدوجہد شروع کی۔

انگریزوں نے اس بغاوت کو کچلنے کی بھرپور کوشش کی۔ ہزاروں حر جنگجوؤں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، قید کیا گیا اور موت کی سزا دی گئی۔ 1900ء میں انگریزوں نے بدنام زمانہ قانون حر ایکٹ پاس کیا جس میں پوری حر برادری کو مجرم قرار دیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے گولی مارنے کا حکم دیا گیا۔ سندھ اسمبلی نے مارچ 1942 کو سندھ حر آپریشن ایکٹ منظور کیا اور یکم جون 1942 کو حر آبادیوں میں مارشل لا نافذ کیا گیا۔ انگریزوں کی برصغیر میں تقریباً چار سو سالہ دور حکومت میں صرف ایک علاقے میں مارشل لا لگا اور وہ سندھ تھا۔ بالآخر پیر پگارا سید صبغت اللہ شاہ کو 20 مارچ 1943 کو صرف 34 سال کی عمر میں حیدر آباد میں بغاوت کے کیس میں مارشل لا عدالت نے جیل کے اندر ہی مقدمہ چلا کر پھانسی دے کر شہید کر دیا۔ ان 34 برسوں میں دس سال وہ انگریزوں کی غلامی نہ کرنے کے باعث ہندوستان کے مختلف جیلوں، رتنا گری، راج شاہی، پونے، میں قید رہے۔ ایک ماہ کے اندر مکمل کیے جانے والے ٹرائل کے دوران انہوں نے قائداعظم کی معاونت حاصل کرنا چاہی لیکن قائداعظم کو ان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔ ان کے ساتھ ان کے پانچ سو سے سات سو حروں کو بھی پھانسیاں دی گئیں۔ سورہیہ بادشاہ کی تدفین کے مقام کو آج تک انتہائی خفیہ رکھا گیا ہے۔ پیر پگارا سورہیہ بادشاہ کی شہادت ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے جسے بدقسمتی سے ہر دور حکومت میں مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سورہیہ بادشاہ نے برطانوی سامراج (جس کا سورج دنیا میں غروب نہیں ہوتا تھا) کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے۔ انہوں نے لازوال قربانیوں کی داستان رقم کی اور چھتیس ہزار حر فوج نے شہادتوں کا تحفہ پیش کیا جس کے لیے انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ سندھ حکومت سے مطالبہ ہے کہ سورہیہ بادشاہ کی درخشاں تاریخ کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ 20مارچ یوم شہادت سورہیہ بادشاہ پر عام تعطیل کا اعلان کیا جائے۔ انگریزوں نے جو حر ایکٹ پاس کیا تھا سندھ اسمبلی کثرت رائے سے اسے مسترد کردے۔ سندھ اسمبلی جنگ آزادی کے ہیرو سورہیہ بادشاہ کو خراج عقیدت پیش کرے اور انگریزی سرکار کے پھانسی کے فیصلے کی شدید مذمت کرے۔ سورہیہ بادشاہ کا کیس دوبارہ کھولا جائے۔ اگر بھٹو کی پھانسی کا دوبارہ کیس سنا جا سکتا ہے تو سورہیہ بادشاہ پیر پگارا کا کیس کیوں نہیں سنا جا سکتا؟ کیونکہ جس طرح بھٹو ملٹری کورٹ کا شکار ہوئے تھے اسی طرح سورہیہ بادشاہ بھی ملٹری کورٹ کا شکار تھے۔