رشوت کے عوض عدالتوں کے فیصلے

338

عدل بے بدل ہے جب ہی تو جنگ عظیم کے بعد تباہ حال برطانیہ کے رہنما چرچل نے دریافت کیا کہ کیا ہماری عدالتیں کام کررہی اور وہاں انصاف ہورہا ہے جب جواب اثبات میں آیا تو چرچل نے کہا کہ ہم پھر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ مملکت خداداد پاکستان میں عدل دلدل کی مثل ہوتا جارہا ہے اور روز محشر موقوف سمجھا جانے لگا ہے۔ ایسے ہی ایک مرحلہ میں میاں طفیل محمد مرحوم جو امیر جماعت اسلامی پاکستان تھے، کہہ اُٹھے ایک قتل ناحق پر کہ بیٹی انصاف تجھے روز محشر کو ہی ملے گا۔ کم گو، صاحب حکمت و بصیرت کا یہ تبصرہ و تجزیہ تقریباً چار عشرے قبل کا ہے۔ اب تو حالت ناگفتہ بے ہے عجب فیصلہ زبان زدعام و خاص میں مول اور قول کے تذکرے ہیں۔ عدل و انصاف جو قاضی کی امتیازی شان ہوا کرتی تھی، معاشرے میں مشکوک ہوتی جارہی ہے اور مضحکہ خیز صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔ دہرے عمل و کردار نے فیصلوں پر سوالات اٹھائے ہیں جو ہرگز ایسے نہیں کہ درگزر کر دیے جائیں، اعلیٰ عدالتوں کی زبوں حالی اور اُن پر سیاسی یلغار اور حملہ بتارہے ہیں کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے۔ رشوت عدالتی عملہ میں رچ بس گئی ہے۔ ججوں کی خریداری کے چرچے بھی ہیں۔ مظلوم و مقہور بے بس ہیں، مایوس ہیں، مال کا فتنہ عروج پر ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نظام عدل بھی اصول و آئین کی رو سے اسلام کے تابع قرار دیا گیا ہے۔

رشوت ستانی کے اس دور دورہ میں شریعت کی کسوٹی ان رشوت کے ماحول میں مفتیان کرام کی رائے عدل کے بارے میں کیا ہے؟ مختلف آرا میں ایک مسلک یہ کے رشوت ستانی کا واقعہ جس مقدمہ میں رونما ہوا اس مقدمہ یا دوسرے مقدمہ میں اس قاضی کا فیصلہ نفاذ کے لائق ہوگا بشرطیکہ فیصلہ کی سب شرائط درست ہوں اس قول کو امام نرودیؒ نے اختیار کیا ہے اور ساتھ ہی علامہ ابن عابدین نے اپنی کتاب ردالمختار علیٰ الدرالمختار میں اس قول کی تائید یوں کی ہے کہ اس زمانے میں اس قول پر مجبوری کے تحت اعتماد کرنا ہوگا ورنہ بیش تر وقوع پزیر مقدمات کے فیصلے ٹوٹ جائیں گے کیونکہ آج کون سا ایسا قضیہ ہے جس میں قاضی رشوت نہ لیتا ہو اور اس کا نام یافت، محصول یا کچھ اور ہوتا ہے۔ غرض فیصلے سے پہلے یا بعد میں اس کا ارتکاب کیا جاتا ہے، لہٰذا اگر فیصلے نافذ العمل نہ مانے جائیں تو سارے احکامات ٹوٹ کر رہ جائیں گے۔ جمال الدین بزودی نے اپنی کتاب العقود والدریہ میں لکھا ہے کہ ہمارے زمانے کے ان قاضیوں کے درمیان اللہ ہی فیصلہ بہتر کرسکتا ہے کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمارے دین کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہمارے نبیؐ کی شریعت کو تہس نہس کردیا ہے اور آج اس کا صرف نام اور کچھ رسمیں باقی رہ گئی ہیں۔ کتاب لسان الحکام میں لکھا ہے کہ فاسق کو جب منصب قضا دیا جائے گا تو وہ قاضی ہوجائے گا ایسا قاضی جس قسم کا حکم دے گا وہ نافذ ہوگا البتہ دوسرے قاضی کو اس فیصلے کو توڑ دینے کا اختیار ہوگا۔ دوسرا قاضی جب پہلے قاضی کے فیصلے کو باطل قرار دے گا تو اب کسی اور قاضی کو اس کے نفاذ کی اجازت نہیں ہوگی۔

دوسرا مسلک یہ ہے کہ کسی مقدمے میں قاضی رشوت لے کر فیصلہ کرے تو اس قضیہ میں اس کا فیصلہ نافذ نہیں ہوگا خواہ اس کا فیصلہ مبنی برحق کیوں نہ رہا ہو۔ اس کے بیٹے یا معاون نے رشوت لی ہو اور قاضی کو معلوم ہو۔ اس طرح اگر اُس نے فیصلے میں کوئی ایسا حیلہ کیا کہ اس مقدمے کو کسی ایسی عدالت میں بھیجا جہاں متعلقہ آدمی کے مسلک کے متعلق فیصلہ ہو تب بھی اس کا فیصلہ نافذ نہ ہوگا۔ (فتح القدیر۔ معین الاحکام۔ بدائع الضائع۔ فتاوے النہدیہ) جب قاضی رشوت لے کر فیصلہ کرتا ہے تو وہ اپنے حق میں فیصلہ کرتا ہے نہ کہ اللہ کے لیے فیصلہ کرتا ہے اس لیے اس کا فیصلہ صحیح نہیں ہوگا۔ (بدائع الضائع)

تیسرا مسلک یہ ہے کہ جس مقدمے میں اُس نے رشوت لی اور اس کے علاوہ جس میں رشوت نہ لی اُس کے تمام فیصلے نافذ نہیں ہوں گے۔ امام ابوحنیفہ کا یہ مسلک ہے۔ مالکیہ اور حنبلہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ امام ابوحنیفہ کے قول پر رائے زنی کرتے ہوئے امام قرطنی نے کہا کہ اللہ نے چاہا تو اس قول سے کوئی اختلاف نہیں کرے گا کیونکہ رشوت ستانی کا فعل فسق تھا اور فاسق کا حکم جائز نہیں (الجامع الاحکام القرآن المقرطبی) جمہور علما تیسرے مسلک پر متفق ہیں کہ اس کے رشوت لے لینے کی وجہ سے اس کا تقرر باطل ہوگیا اور فسق کی وجہ سے اُس کے احکام لائق نفاذ نہ رہے۔