نادرا خانم

321

نادرا کی کارکردگی کو واردات کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا بعض لوگوں کو ہماری رائے سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر ہماری بپتا سْن کر وہ متفق ہو سکتے ہیں۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ہمارا شناختی کارڈ گْم ہوگیا ہم نے خدمت مرکز نادرا کے آفس جاکر شناختی کارڈ کی اپیل کی تو والد ِ محترم کا شناختی کارڈ طلب کیا گیا جو ہمارے پاس نہیں تھا۔ گھر آ کر تلاشِ بسیار کے باوجود شناختی کارڈ نہ ملا، دوسرے دن ہم نے شناختی کارڈ کا نمبر دیا تو کہا گیا یہ تو پْرانا ہے آپ نیا نمبر بتاؤ۔ ہم نے کہا کہ اْن کو وفات پائے 20 سے 25 سال بیت گئے ہیں نیا شناختی کارڈ تو نہیں بنوا سکتے کہا گیا والدہ، بھائی یا بہن کا شناختی کارڈ لے آؤ۔ ہم چھوٹے بھائی کا شناختی کارڈ لے کر گئے جسے دیکھ کر کہا گیا آپ کی اور اس کی والدہ الگ الگ ہیں۔ اس لیے یہ قابل ِ قبول نہیں ہم نے کہا کہ آپ نے شناختی کارڈ کی تجدید کرنا ہے اور سارا ریکارڈ آپ کے پاس موجود ہے آپ کے پاس میری والدہ، میرے والد اور بہن بھائیوں کے ناموں کا ریکارڈ بھی موجود ہے پھر یہ فضول اذیت ناک کارروائی بلکہ واردات کی کیا ضرورت ہے؟ آپ کیوں نادرا کو نادرا خانم بنانے پرکمر بستہ ہیں؟ کہا گیا کہ اب شناختی کارڈ کی تجدید نہیں ہوتی بلکہ نیا شناختی کارڈ بنایا جاتا ہے اور اس کے لیے ساری کارروائی از سر ِ نو کی جاتی ہے۔ استفسار کیا کہ اب نیا شناختی کارڈ کیسے بنے گا؟ تو بتایا گیا کہ آپ اپنے محلے کے دو افراد کا حلف نامہ لے آؤ پھر آپ کا شناختی کارڈ بنے گا۔ ہمیں ایک فارم دیا کہ اسے حلف نامہ کے ساتھ لگا دینا۔

فارم دیکھ کر ہمیں سخت دْکھ ہوا کیونکہ حلف نامہ کے مطابق یہ حلف دینا تھا کہ ہم پاکستانی ہیں اور ہمارا کوئی خونی رشتہ دار زندہ نہیں ہے۔ یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ ایک حساس ادارے کے عہدے دار کو پاکستانی شہری ثابت کرنے کے لیے دو افراد سے حلف نامہ درکار ہے۔

ہماری پیدائش کے چند ماہ بعد والدہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ اْن کا شناختی کارڈ کیسے بنتا؟ والد ِ محترم کا بھی 20 سے 25 سال قبل انتقال ہوچکا ہے سو نادرا کی نظر میں ہماری پاکستانیت بھی مشکوک ہو گئی ہے سو شناختی کارڈ بنوانے کے لیے حلفیہ بیان کی ضرورت ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر ایک والد کی اولاد خونی رشتہ دار نہیں تو پھر خونی رشتہ کا مطلب کیا ہوا؟ بہرحال جیسے تیسے کر کے دو حلف نامے حاصل کیے مگر نادرا کے آفس گئے تو کہا گیا کہ حلف دینے والوں کو بھی لاؤ اْن کے بغیر یہ حلف نامہ قابل ِ قبول نہیں ہم نے کہا کہ محترمہ کیاآپ نے اْن کے ساتھ تصویر بنوانی ہے؟ مسکرا کر فرمانے لگیں تصویر نہیں بنوانی انگو ٹھے لگوانے ہیں۔ دوسرے دن ہم پھر نادرا کے دفتر گئے مگر دوسرا حلیف بیمار تھا وہ ہمارے ساتھ نہیں گیا اْ س کے بارے میں پوچھا گیا تو ہم نے بتایا کہ وہ بیمار ہے اْنہوں نے کہا کہ جب دونوں ساتھ ہوں گے تب ہی حلف نامے قابل ِ قبول ہوں گے۔ اس طرح آنے جانے میں ایک ہفتہ گزر گیا اور آمدو رفت میں بھی کئی ہزار روپے خرچ ہوگئے مجبوراً ہمیں نیا حلف نامہ لینا پڑ ا اس کے بعد ہماری درخواست قبول کر لی گئی۔

یہ کیسا المیہ ہے کہ وطن ِ عزیز کے ہر ادارے کا مقتدر عقل سے پیدل ہوتا ہے اور فیصلہ ساز قوتیں اْنہیں قوم کے کندھوں پر سوار کر دیتی ہیں جو پیر تسمہ پا بن کر عوام کی گردنوں پر سوار ہو جاتے ہیں اور عقل سے پیدل انہیں لوگوں نے شناختی کارڈ کے عمل کو مشکل بنادیا ہے۔ نادرا کے پاس ہر پاکستانی شہری کا ریکارڈ موجود ہے اس کے باوجود شناختی کارڈ گم ہونے کی صور ت میں شناختی کارڈ طلب کرنے والے کے لیے ایک ہی ماں باپ کا ہونا کیوں ضروری ہے؟ قابل ِ غور بات یہ بھی ہے کہ نادرا کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ خونی رشتے کا تعین کرے۔ حالانکہ لیلیٰ سے یکجہتی رکھنے والے بھی مجنوں سے بھائی چارہ رکھنے پر اعتراض نہیں کرتے۔