جوڑ توڑ کا کھیل

329

بعض لازمی ملزم پاکستان اور عمران خان کو لازم و ملزوم قرار دے رہے ہیں اْن کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف عمران خان کی ضمانت کے بغیر پاکستان کو پھوٹی کوڑی بھی نہیں دے گا حالانکہ وہ اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں کہ آئی ایم ایف حکومت کا قرض دیتا ہے کسی فردِ واحد کو نہیں۔ آئی ایم ایف پاکستان کو پھوٹی کوڑی دے یا نہ دے مگر اشرافیہ نے پاکستان کو پھوٹی قسمت ضرور دے دی ہے اور اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ فوج اور عدلیہ اپنی ذمہ داری سے چشم پوشی کررہے ہیں۔
بھارت ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا تھا اْس نے آزادی اورخود مختاری کا علم بلند کرکے ملک و قوم کو اقوام ِ عالم میں سرفراز کرنے میں کسی کوتاہی کا ارتکاب نہیں کیا مگر پاکستان کے حکمرانوں نے وطنِ عزیز کو رْسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
کچھ عرصہ قبل بھارت کے ایک اخبار نے ایسا مضمون شائع کیا جسے پڑھ کر قارئین حیران و پریشان رہ گئے۔ مضمون میں جو تصویر شائع ہوئی تھی وہ ایک سابق وزیر ِ اعظم کی تھی۔ خبر کے مطابق مالک ِ مکان نے بوڑے شخص کا سامان باہر پھینک دیا تھا کیونکہ وہ کئی ماہ سے مکان کا کرایہ ادا نہیں کرسکا تھا۔ خبر کی اشاعت کے بعد صوبے کا وزیر ِ اعلیٰ اور دیگر صاحب ِ اقتدار افراد وہاں پہنچے اور سابق وزیر ِ اعظم سے کہا چلیے آپ کو رہائش کے لیے ایک شاندار مکان دیا جارہا ہے۔ بوڑھے شخص نے کہا بھارت میں جتنے بے گھر افراد ہیں اْنہیں بھی مکان دیا جائے تب ہی وہ حکومتی مکان میں رہائش رکھ سکتے ہیں۔ بوڑھے شخص کو سمجھایا گیا کہ آپ بھارت کے کئی بار وزیر ِ اعظم رہے ہیں اس لیے حکومت نے آپ کی خدمات کے صلے میں رہائش کا بندوبست کیا ہے۔ آپ کو محنت مزدوری کرنے کی ضرورت نہیں مالک ِ مکان نے جو بوڑھے شخص کا سامان گھر سے باہر پھینکا تھا وہ ایک چارپائی اور دو تین چھوٹے برتنوں پر مشتمل تھا۔ صوبے کے وزیرِ اعلیٰ نے بوڑھے شخص سے کہا آپ کو محنت مزدوری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں حکومت آپ کو 5000 روپے ماہانہ دے گی۔ وزیرِ اعلیٰ کے ساتھ آنے والے افراد اور اہلِ محلہ کے سمجھانے پر بوڑھا شخص راضی ہوگیا مگر اْس نے 5000 روپے ماہانہ لینے کے بجائے 500 روپے لینے پر آمادگی ظاہر کی۔
سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ہندوستان میں سابق ہونے والے وزیرِ اعظم کو پنشن و دیگر مراعات و سہولتیں کیوں نہیں دی جاتیں۔ جبکہ وطنِ عزیز میں کونسل منتخب ہونے والا شخص بھی اپنی مدت ختم ہونے کے بعد ٹھیکیدار بن جاتا ہے۔ شنید ہے کہ پاکستان میں تو نگران وزراء اور وزیر ِ اعظم کو بھی پنشن اور دیگر مراعات و سہولتیں دی جاتی ہیں حتیٰ کہ پر تعیش زندگی گزارنے کے لیے مفت بجلی، پٹرول، کار، گیس اور کئی خدمت گار بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے اعلیٰ افسران کی کوئی کمی نہیں جو لاکھوں روپے ماہانہ پنشن لے رہے ہیں مفت بجلی، پٹرول اور کئی کئی خدمت گار بھی دیے جاتے ہیں جن کی تنخواہ بھی پاکستان کے خزانے سے ادا کی جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
وزیرِ اعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ معیشت کی بحالی کے لیے ہم ہر ممکن اقدام کریں گے۔ اگر وہ یہ لاکھوں روپے کی پنشن اور دیگر سہولتیں و مراعات پر پابندی عائد کردیں تو پاکستان کی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہے اور وطن ِ عزیز کو عالمی مالیاتی اداروں کے در پر سرنگوں ہونے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
مضمون نگار نے یہ تو نہیں بتایا کہ سابق وزیرِ اعظم ایسی خستہ حال زندگی کیوں گزار رہا تھا؟ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ملک کے وسائل پر مقتدر شخصیات ہی فیض یاب کیوں ہوتی ہیں؟ اور قوم سے بنیادی حقوق بھی چھین لیے جاتے ہیں۔ یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ سیاست دان اور دانشور ملک و قوم کی ترجمانی کرنے کے بجائے ذاتی مفادات کو فوقیت دیتے ہیں۔ دانشور عوام کی فلاح و بہبود کے بجائے گڑھے مردے اْکھاڑتے رہتے ہیں۔ وہ قوم کو یہ باور کراتے رہتے ہیں کہ 1956 کا آئین نہ توڑا جاتا تو سقوط ڈھاکہ کا سانحہ نہ ہوتا۔ اگر 1973 کا آئین توڑا گیا تو یہ ایک اور سقوط ہوسکتا ہے۔ اگر 1973 کا آئین اتنا ہی محترم ہے تو بْھٹو مرحوم اس سے کھلواڑ کیوں کرتے رہے؟ اْنہوں نے کئی بار اس کو توڑا اصل المیہ یہ ہے کہ مقتدر قوتیں پاکستان کے ساتھ جوڑ توڑ کا کھیل کھیلتی رہتی ہیں۔ تاکہ اقتدار اْن کی نسل کو منتقل ہوتا رہے۔