!خوش آمدید اے ماہ صیام

459

ایسا مہمان جس سے قلبی لگاؤ زیادہ ہو اور آبھی بہت لمبے عرصے کے بعد رہا ہو۔ اس کے استقبال کی تیاریاں بھی اسی طرح کی ہوتی ہیں۔ گھر کی صفائیاں ہوتی ہیں، گھر کی آرائش کا بھی اہتمام ہوتاہے۔ جیسے جیسے اس کے آنے کے دن قریب آتے ہیں اس کا تذکرہ بھی بڑھ جایا کرتا ہے۔ گھر کا ہر فرد اس کے استقبال کے لیے خصوصی طور پر خود کو تیار کرتا ہے اور یہ معلوم ہوجائے کہ آنے والا مہمان اپنے ساتھ ڈھیروں تحائف بھی لاتا ہے تو پھر اس کا انتظار بچّوں کو بھی بڑی بے چینی سے ہونے لگتا ہے۔
رمضان المبارک اپنے دامن میں ایک بندۂ مومن کے لیے کیا کچھ تحائف لے کر آتا ہے یہ اللہ اور اس کے محبوبؐ سے زیادہ کون جان سکتا ہے اسی اہمیت کے پیش نظر نبی رحمتؐ رجب کے مہینے کے شروع ہوتے ہی یہ دعا بار بار اللہ کے حضور کیا کرتے کہ ’’اے اللہ رجب اور شعبان کے مہینے میں میرے لیے برکت ڈال دے اور مجھے رمضان تک پہنچادے‘‘ رمضان کی اہمیت کا اندازہ نبی مہربان کی اس دعا سے ہوسکتا ہے اور پھر آپؐ اس بات کا اہتمام فرماتے مدینے میں صحابہ کرام کو جمع کرتے پھر امام الانبیا ان کو مختصر خطبہ دیا کرتے جس میں سے ایک خطبے کے راوی سیدنا سلمان فارسیؓ ہیں وہ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’اے لوگوں تم پر عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فکن ہونے والا ہے اس مہینہ کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیے ہیں اور اس کی راتوں میں قیام (ترویح) کو نفل قرار دیا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے لیے کوئی نفل اداکرے گا اس کو فرض کے برابر اجر عطاکیا جائے گا اور جو کوئی اس مہینے میں فرض ادا کرے گا اس کو ستّر فرضوں کے برابر اجر عطا کیا جائے گا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں بندۂ مومن کے زرق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو اس کا یہ عمل اس کے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے اجر کے برابر ثواب دیا جائے گا اور روزے دار کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ کسی نے پوچھا یارسول اللہؐ ہم میں سے ہر ایک کو اتنا سامان میسر نہیں ہوتا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اس شخص کوبھی وہ اجر ملے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسّی یا پانی کے ایک گھونٹ سے کسی کا روزہ افطار کرائے گا۔ اور جوکوئی کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے گا اس کو اللہ میرے حوض کوثر سے ایسا سیراب فرمائے گا کہ جنت میں داخل ہونے تک اسے پیاس نہیں لگے گی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا اس مہینے کا پہلا عشرہ رحمت کا ہے دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے اور تیسرا عشرہ جہنم کی آگ سے نجات کا ہے۔ جو آدمی اپنے غلام کے کام میں تخفیف کردے گا اللہ اس کی مغفر فرمادے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی عطا فرمادے گا‘‘۔
لیکن اگر آج ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو بہت ہی کم لوگ ایسے نظر آئیں گے جو اس حدیث کے مطابق اس مہینے کو گزارتے ہیں اور ہوتا یوں ہے کہ اس ماہ مبارک کی اہمیت سے ہمارے بڑے کاروباری حضرات سے لیکر ایک پھلوں کا ٹھیلہ لگانے والا خوب اچھی طرح واقف ہوتے ہیں اور اس کی آمد کا انتظار گیارہ مہینے کرتے ہیں۔ سال کے گیارہ مہینے منصوبے بنائے جاتے ہیں کہ آنے والے رمضان میں کس طرح سے روزہ داروں کی جیب سے رقم نکلوانی ہے۔ حکومت بھی اس سلسلے میں انہی سرمائے داروں کے ساتھ پوری طرح کھڑی ہوتی ہے قیمتوں پر کنٹرول کیا جائے گا اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ صرف زبانی دعوے ہوتے ہیں عملاً کچھ ہوتا نہیں دکھائی دیتا۔ پورے رمضان ہر جگہ روزے داروں کو الٹی چھری سے ذبح کیا جاتا رہتا ہے مگر کوئی ادارہ کان دھرنے کو تیار نہیں ہوتا خاص طور پر جس کے ذمہ داری قیمتوں پر کنٹرول رکھنا ہے وہ تو اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ وقت اپنے ٹھنڈے کمروں میں رمضان گزارتے ہیں۔ ہمارے ارباب بے اختیار دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی باتیں کرتے نہیں تھکتے کہ برطانیہ اور امریکا اور دیگر غیر مسلم ممالک میں رمضان میں چیزوں کی قیمتیں کم کردی جاتی ہے بلکہ تہواروں پر بارعایت چیزیں فروخت کی جاتی ہیں مگر یہ حضرات انہی دنوں میں ان منافع خوروں کو عوام پر پوری طرح مسلط کردیتے ہیں۔ اور صورت حال یہ ہوتی ہے کہ رمضان کا چاند جس مغرب کے بعد لوگ دیکھتے ہیں اس کے بعد اگلے روز عصر میں آپ بازار چلے جائیں تو آپ کو ٹھیک سے معلوم ہوجائے گا کہ آج پہلا روزہ ہے۔ اب مہنگائی کی حدّت اور شدّت میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہوتا چلا جائے گا یہ حدّت اور شدّت چاند رات تک مسلسل بڑھتی جائے گی۔ یہ عید کی چاند رات تک اپنے نقطہ عروج پر پہنچ جائے گی تاآنکہ عید کی صبح نمودار ہوجائے گی۔ روزہ داروں کے لیے تو عید خوشیوں کا دن ہوتاہے اور منافع خوروں کے لیے شام غریباں۔ ایک حدیث میں آپؐ نے فرمایا کہ کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں جن کو بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی راتوں کے جاگنے والے ایسے ہیں جن کو رت جگوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ (سنن نسائی )
بدقسمتی سے آج عبادات کی ظاہری شکل کو ہی عبادت سمجھ لیا گیا ہے اور ٹھیلے والا یا دکانوں میں موجود دکاندار بھی روزہ سے تو ہوتا ہے۔ تاجر بھی روزہ دار ہوتا ہے مگر وہ دھڑلے سے ناجائز منافع خوری کررہا ہوتا ہے، جھوٹ بھی بول رہا ہوتا ہے اور کم بھی تول رہا ہوتا ہے۔ اور ساتھ ساتھ خریدار کو مطمئن کرنے کے لیے اور اپنے آپ کو جھوٹی تسلی دینے کے لیے کم تولنے کے گناہ، جھوٹ سے بے برکتی اور ناجائز منافع خوری کے عواقب سے آگاہی بھی فراہم کرتا رہتا ہے۔ آپ کسی دکان پر چلے جائیں اور پھل کی قیمت پوچھیں تو وہ کہے گا کہ صبح سے ڈھائی سو روپے کلو بیچے ہیں مگر صرف آپ کے لیے دوسو روپے کلو دے دوں گا جیسے آپ ان کے ماموں جان لگتے ہوں۔ خود اپنے ہاتھ سے پھل اٹھانے شروع کردیں تو دکاندار کہے گا ارے صاحب ادھر سے مت اٹھائیں میں آپ کو اچھے والے اٹھا کر دیتا ہوں جیسا کہ وہ آپ کا خیر خواہ ہے اور وہ اسی ٹوکرے یا ڈھیر سے آپ کے تھلیے میں تمام داغی پھل صفائی سے ڈال دے گا اور تھیلی کو اچھی طرح باندھ بھی دے گا تا کہ آپ تھیلی کی گرہ کھول کر تھیلی کے اندر پھلوں کو دیکھنے کی زحمت بھی نہ سکیں۔ یہ تو افطار سے ذرا پہلے پتا چلے گا جب اہل خانہ افطار کے لیے دستر خوان پر جمع ہوں گے اور گھر والوں کی کڑوی کسیلی باتیں سننے کو ملیں گی۔ رمضان زندگی میں آتے رہیں گے اور ہم روزے اور نماز کا اہتمام بھی کرتے رہیں گے لیکن اگر ان عبادات کو ان کی روح کے ساتھ سمجھ کر ادا نہ کیا جائے گا تو نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ جس شخص نے روزہ رکھ کر جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ (بخاری، کتاب الصوم)