جون پور کا قاضی

425

قانون کو اندھا کہنا حقائق کے خلاف ہے قانون اندھا نہیں ہوتا، قانون پر عمل درآمد کرانے والا اندھا ہوتا ہے۔ قانون کمزور ہو تو وکلا طاقتور ہوجاتے ہیں اور عدلیہ اْن کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ ملک جون پور بن جاتا ہے جج اور جسٹس صاحبان قاضی کا روپ دھار لیتے ہیں۔
یوں تو پاکستان کے آئین میں بنیادی حقوق کو خاص اہمیت حاصل ہے آئین کے آرٹیکل 8 کے مطابق بنیادی حقوق آئین کی روح ہوتے ہیں اور ہر صورت میں لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ضروری ہوتا ہے اور آرٹیکل 9 میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کو تحفظ دیا جائے مگر عدالتوں میں جعلی مقدمات کی سماعت کر کے شہریوں کو عدالت کی غلام گردشیوں کا غلام بنا دیا جاتا ہے۔ عدم ثبوت کے بغیر مقدمات کی سماعت مد عا علیہ کے بنیادی حقوق کی پامالی کے مترادف ہے اور عدلیہ بڑی دیدہ دلیری سے عوام کے بنیادی حقوق کو روندتی رہتی ہے۔
عزت مآب چیف جسٹس پاکستان فائز عیسٰی کا ارشادِ گرامی ہے کہ ثبوت کے بغیر کوئی مقدمہ قابل ِ سماعت نہیں ہوتا اور کوئی ایسا قول جس کا ثبوت نہ ہو وہ بیان بھی قابل تحقیق نہیں ہوتا۔ دنیا میں لگ بھگ 250 ممالک ہیں جہاں عدالتیں قانون کے مطابق اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں ان ممالک میں 140 ملک ایسے بھی ہیں جہاں جج اور جسٹس صاحبان قانون کے بجائے اپنی مرضی کے فیصلے سناتے ہیں۔ بد نصیبی یہ بھی ہے کہ ان 140 ممالک کی عدلیہ میں پاکستان کا 140واں ہی نمبر ہے۔
شاید ہی دنیا میں کوئی ایسی عدلیہ ہو جو از خود نوٹس نہ لیتی ہو اور یہ از خود نوٹس قوم کی بنیادی حقوق کی سر بلندی کے لیے ہوتا ہے مگر پاکستان کی عدلیہ جب بھی از خود نوٹس لیتی ہے اپنی برتری کو نمایاں کرنے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے لیتی ہے۔ بھارت ہمارا ہمسایہ ملک ہے وہاں پر بھی عدلیہ از خود نوٹس لیتی ہے مگر از خود نوٹس کا مقصد بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ہوتا ہے۔ وہ کسی کو عدالتوں کی غلام گردشیوں کا غلام بننے پر مجبور نہیں کرتی۔ بھارت میں کسی بھی غیر قانونی بستی کو بلڈوز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر بستی کو خالی کرانا ملک کے مفاد میں ہو تو بستی کے متبادل نہ صرف زمین دینا ضروری ہوتا ہے بلکہ ملبے کے پیسے دینا بھی لازمی ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی حادثے میں زخمی ہوجائے تو قریبی اسپتال یا قریبی ڈاکٹر کو پابند کیا گیا ہے کہ پہلے مریض کا علاج کیا جائے پھر پولیس میں رپورٹ لکھوائی جائے۔ اور اگر کوئی ڈاکٹر یا اسپتال علاج سے گریز کرتا ہے تو خون بہنے کے سبب موت واقع ہوجائے تو پرائیویٹ ڈاکٹر یا اسپتال کے موجودہ ڈاکٹر پر قتل کا مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔
جائداد کے مقدمے کا اندراج کرنے سے پہلے یہ تحقیق ضروری ہے کہ مقدمہ درست اور جائز ہے یا ذاتی دشمنی کا شاخسانہ ہے۔ کیونکہ وہاں بنیادی حقوق کا احترام کیا جاتا ہے اور حکومت کا ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنا لازمی سمجھا جاتا ہے۔
بہاولپور ہائی کورٹ کے معتوب بابا جی کی پیشی 27 فروری 2024 کو تھی۔ مگر سماعت کے بجائے پیشی لیفٹ اوور کر دی گئی۔ یہ کیسا تماشا ہے کہ جسٹس صاحب صبح 9 بجے تشریف لائے اور 10 بجے مقدمات کو لیفٹ اوور کردیا گیا۔ بابا جی نے جسٹس صاحب سے ملاقات کا مطالبہ کیا، بابا جی نے کہا میری عمر 80 سال کے لگ بھگ ہے اور شوگر، بلڈ پریشر کا مریض ہوں میرا مقدمہ 25 سال سے چل رہا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ 25 سال سے رینگ رہا ہے۔ اس حوالے سے بابا جی نے جسٹس صاحب سے ملاقات کا مطالبہ کیا تھا مگر اْنہیں کہا گیا آپ ہمارے بزرگ ہیں ہم آپ کی عزت کرتے ہیں آپ کے مقدمے کی طوالت بھی باعث ِ ندامت ہے اس کے باوجود جسٹس صاحب سے آپ کی ملاقات نہیں کرائی جاسکتی البتہ آپ کو پیشی دی جاسکتی ہے۔ ریڈر نے باباجی کا مقدمہ نمبر لکھا اور یقین دلایا کہ پیشی کی اطلاع بذریعہ فون کر دی جائے گی۔