مردہ گھوڑا

376

ہندوستان کی مشہور فلم شعلے میں گبّر سنگھ نے اپنے زخمی ڈاکو ساتھی کو کہا کہ گبّر سنگھ اپنے ساتھ زخمی ساتھی اور لنگڑے گھوڑے کو نہیں رکھا کرتا۔۔۔ اور یہ کہہ کر اس نے اپنے زخمی ساتھی کو گولی مار کر موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ آج یہ خبر اخبار کی زینت بنی ہے کہ ایم کیو ایم نے مسلم لیگ (ن) اور پی پی کو حکومت سازی میں اپنی حمایت کی یقین دہانی کرادی ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ کے رہنما سعید غنی صاحب نے نومبر میں اپنے ایک بیان میں ایم کیو ایم کو کراچی کی سیاست کا مردہ گھوڑا اور اتحاد کا بھکاری قرار دیا تھا۔ جس کے بعد ایم کیو ایم کے خواجہ صاحب نے بھی اس بیان کا نوٹس لیا اور فرمایا کہ جو لوگ ایم کیو ایم کو مردہ گھوڑا قرار دے رہے ہیں وہ یہ بات بھول گئے ہیں کہ اسی مردہ گھوڑ ے پر سوار ہوکر وہ وزیر خارجہ بنے تھے۔ اس بات کا پس منظر یہ ہے آج مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم شراکت اقتدار میں ایک ساتھ بٹھائی گئی ہیں ان کا ماضی یہ ہے کہ ایّوب خان کی کابینہ میں ذولفقار علی بھٹو وزیر خارجہ کی حیثیت سے سیاست میں آئے وہ فیلڈ مارشل آمر وقت کو ڈیڈی کہا کرتے تھے۔ جب انہوں نے قدم جمالیے تو انہوں نے ایّوب خان کو اقتدار سے فارغ کردیا اور ڈیڈی جان کو بھول گئے۔

نواز شریف کرکٹ کھیلا کرتے تھے وہ جرنیلوں کو بھا گئے ان کو پنجاب کی وزارت دی گئی آمریت کے گملوں میں ان کی آبیاری شروع ہوئی۔ پھر وہ جرنل پرویز مشرف سے پنگا لے بیٹھے جس کی سزا یہ ملی کہ ان کو سعودی عرب کو ثالث بنا کر معاہدہ کرکے ملک سے بیس سال کے لیے فرار ہونا پڑا ویسے ان کی فطرت میں بھگوڑا پن کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ابھی بھی یہ معاہدہ کرکے خود ساختہ جلا وطنی ختم کرکے ملک میں آئے ہیں اور دیکھیے کب تک یہاں ان کا قیام رہتا ہے۔ بالکل اسی طرح ایم کیو ایم کو جنرل ضیاء الحق نے کراچی میں جماعت اسلامی کے مینڈیٹ کو ختم کرنے اور کراچی میں جماعت کو نقصان پہنچانے کے لیے بنایا تھا وقتی طور پر وہ اپنے اس منصوبے میں کامیاب ہوئے مگر اب دوبارہ کراچی اپنی اصل کی طرف لوٹا ہے کراچی کے لوگوں نے پھر ایک بار جماعت کو اپنا مینڈیٹ دیا ہے مگر اب پھر مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے مگر اب صورت حال بدل چکی ہے عوام اب بیدار ہیں اور اس کھیل کو سمجھ چکے ہیں اس لیے اب قتدار کی بندر بانٹ بند کمروں میں چھڑی کے سائے تلے ہورہی ہے۔

تادم تحریر یہ بات بھی سامنے آگئی ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کو شریک اقتدارکر دیا گیا ہے اور اس بندر بانٹ میں یہ بھی ہوگیا ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئر مین المعروف مسٹر سنٹ پرسنٹ صدر ہوں گے اور نواز شریف کے برادر خورد شہباز شریف وزیر اعظم ہوں گے جن کی وزارت عظمیٰ کا مزہ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے قوم نے چکھا ہے۔ نگراں حکومت نگراں گورنر پنجاب اور دیگر لوگوں کی محنتوں سے نئے سیٹ اپ کی تشکیل ہورہی ہے۔ اس سیٹ اپ میں اگر دیکھیں تو ایک طرف ناکام سابق صدر موجود ہیں تو دوری طرف ناکام سابق وزیر اعظم موجود ہیں۔ سندھ کے اندر بھی پیپلز پارٹی کی حکومت کا تسلسل دوبارہ قائم ہونے جارہا ہے چوبیس سال سندھ پر حکومت کرنے والی اس جماعت کی کارکردگی کرپشن میں تو بڑی غیر معمولی رہی ہے مگر سندھ اور کراچی بالخصوص کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے ہیں اور باقی رہ گئی ایم کیو ایم جو کہ سیاسی پارٹی ہی نہیں ہے بلکہ یہ جرائم پیشہ افراد کا ٹولہ ہے جس کے دامن سے ہزاروں انسانوں کا خون ٹپک رہا ہے بلدیہ فیکٹری کے دو سو ستّر معصوم ملازمین کی سوختہ لاشیں ان کا پیچھا کررہی ہیں یہ ایک مثال ہے جو کہ اس جماعت کی کراچی اور حیدر آباد کا تیس سالہ ماضی کی تاریخ ہے۔ ان تینوں پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ ان لوگوں کا ٹولہ ہے جو کہ سندھ میں تو شکلیں بھی نہیں بدلتا ہے۔ اب پھر ان لنگڑے گھوڑوں اور مردہ گھوڑوں کو قو م کے سروں پر مسلّط کیا جارہا ہے۔ پہلے تو مردہ گھوڑا جس کی لاش سے تعفّن پھیلے گا جس سے پورا شہر کراچی آئندہ پھر پریشان ہوگا اور دوسرے لنگڑے گھوڑے قوم کا وزن کیا اٹھائیں گے ان کے لیے تو اپنے وجود کو بھی لے کر چلنا مشکل ہے یہ بھی عوام سمجھ سکتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور جرنیل اپنے مفادات کے حصول کے لیے تینوں جماعتوں کو پورے پاکستان پر مسلط کررہے ہیں۔ یہ یکسر پاکستان اور اس کے عوام کے حق میں بہتر نہیں ہے۔ کبّر سنگھ کے بھی کچھ اصول تھے مگر ان کا کوئی اصول نہیں ہے۔