جب آدمی کے حال پہ آتی ہے مفلسی

425

نظیر اکبر آبادی سے بات آغاز کرتے ہیں۔ شیخ ولی محمد نظیر اکبر آبادی میر تقی میر کے ہم عصر تھے۔ یہ سلطنت مغلیہ کے زوال کا زمانہ تھا۔ سارے ہندوستان میں اضطراب اور بے چینی کا دور دورہ تھا۔ سماج میں یاس، افسردگی،خود فریبانہ تعیش پایا جاتا تھا۔ اس دور کی اردو شاعری پر بھی یہی اثرات کارفرما تھے۔ ہر سو درد، سوز، حسن و جمال، بے جا انفرادیت کے جال پھیلے ہوئے تھے لیکن نظیر اکبر آبادی نے عام آدمی کے چراغ سے اپنی شاعری کا سورج روشن کیا۔

نظیر اکبر آبادی کی شاعری کا سورج آج بھی روشن ہے۔ کتنے ہی موضوعات ہیں آج بھی جب ذکر ہوتے ہیں تو نظیر یاد آجاتے ہیں۔ کئی دن سے آئی ایم ایف کو خط لکھنے اور پاکستان کو قرضہ دینے سے روکنے کے حوالے سے عمران خان حرف ملامت کے گھیرے میں ہیں۔ قرض لینا بذات خود اچھی بات نہیںاور پھر آئی ایم ایف کا قرض !!! اللہ کی پناہ۔ تاہم کہا جارہا ہے کہ اگر یہ قرض نہ ملا تو صورتحال اس سے بھی بدتر بلکہ بدترین ہو جائے گی جتنی کہ آج ہے اور ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔ مفلسی ہر سمت سے یلغار کردے گی۔ مفلسی کی بات ہوئی تو نظیر اکبر آبادی کی نظم ’’مفلسی‘‘ ہمارے شعور پر چھا گئی۔ آپ بھی اس کے کچھ بند ملا حظہ فرمائیے:

جب آدمی کے حال پہ آتی ہے مُفلسی
کِس کِس طرح سے اُس کو ستاتی ہے مُفلسی
پیاسا تمام روز بٹھاتی ہے مُفلسی
بھُوکا تمام رات سُلاتی ہے مُفلسی
یہ دکھ وہ جانے، جس پہ کہ آتی ہے مُفلسی
کہیے تو اب حکیم کی سب سے بڑی ہے شاں
تعظیم جس کی کرتے ہیں نوّاب اور خاں
مُفلس ہوئے تو حضرتِ لقمان کیا ہیں یاں
عیسیٰ بھی ہو، تو کوئی نہیں پوچھتا، میاں
حکمت حکیم کی بھی ڈُباتی ہے مُفلسی
جو اہلِ فضل، عالم و فاضل کہاتے ہیں
مُفلس ہوئے، تو کلمہ تلک بھول جاتے ہیں
پوچھے کوئی الف، تو اُسے ب بتاتے ہیں
وہ جو غریب غُربا کے لڑکے پڑھاتے ہیں
اُن کی تو عمر بھر نہیں جاتی ہے مُفلسی
مفلس کرے جو آن کے مجلس کے بیچ حال
سب جانیں، روٹیوں کا یہ ڈالا ہے اِس نے جال
گر گر پڑے، تو کوئی نہ لیوے اُسے سنبھال
مُفلس میں ہوویں لاکھ اگر علم اور کمال
سب خاک بیچ آ کے ملاتی ہے مُفلسی
مُفلس کی کچھ نظر نہیں رہتی ہے آن پر
دیتا ہے اپنی جان وہ ایک ایک نان پر
ہر آن ٹوٹ پڑتا ہے روٹی کے خوان پر
جس طرح کُتّے لڑتے ہیں ایک استخوان پر
ویسا ہی مُفلسوں کو لڑاتی ہے مُفلسی
کرتا نہیں حیا سے جو کوئی، وہ کام، آہ
مُفلس کرے ہے اُس کے تئیں انصرام، آہ
سمجھے نہ کچھ حلال، نہ جانے حرام، آہ
کہتے ہیں جس کو شرم و حیا، ننگ و نام، آہ
وہ سب حیا و شرم اُٹھاتی ہے مُفلسی
لازم ہے، گر غمی میں کوئی شور و غُل مچائے
مُفلس، بغیر غم کے ہی کرتا ہے ہائے ہائے
مرجا وے گر کوئی، تو کہاں سے اُسے اٹھائے
اِس مفلس کی خواریاں کیا کیا کہوں میں ہائے
مُردے کو بِن کفن کے گڑاتی ہے مُفلسی
بی بی کی نتھ، نہ لڑکوں کے ہاتھوں کڑے رہے
کپڑے میاں کے، بنیے کے گھر میں پڑے رہے
جب کڑیاں بِک گئیں، تو کھنڈر میں اڑے رہے
زنجیر، نہ کواڑ، نہ پتّھر گڑے رہے
آخر کو اینٹ اینٹ کھُداتی ہے مُفلسی
کیسی ہی دھوم دھام کی رنڈی ہو خوش جمال
جب مُفلسی کا آن پڑے سر پہ اُس کے جال
دیتے ہیں اُس کے ناچ کو ٹھٹّھے کے بیچ ڈال
ناچے ہے وہ تو فرش کے اوپر قدم سنبھال
اور اُس کو اُنگلیوں پہ نچاتی ہے مُفلسی

نظیراکبرآبادی کی نظم خوب بلکہ بہت خوب ہے لیکن چونکہ یہ نظم آئی ایم ایف کے سودی قرضے کے تناظر میں بیان کی گئی ہے اس لیے عرض یہ ہے کہ سودی قرضہ مفلسی سے بدتر بلکہ بدترین ہے … کہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کے مترادف ہے…