اسٹیبلشمنٹ کی عظمت کو سلام

551

سابق کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ کے الزامات کی تحقیقات ہوتی ہیں یا نہیں، یہ الزامات درست تھے یا غلط، ان کے معافی مانگنے کے بعد اب تو سب کچھ ہی خارج ازبحث ہوگیا ہے۔ وہ عقاب جو بڑی تیزی سے بلندیوں کی طرف محو پرواز ہوا تھا خود ہی زمین کی تھاہ پر آکر بیٹھ گیا۔ تاہم اس پریس کانفرنس میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی جیتی ہوئی نشستیں جس طرح بینڈ باجوں کے ساتھ زیر بحث آئی تھیں، اس میں دونوں جماعتوں کے لیے جو پیغام تھا وہ پہنچ گیا اتنے موثر انداز میں کہ وہ دونوں جماعتیں جو چند گھنٹوں پہلے تک حکومت سازی سے دامن بچارہی تھیں بارہ بجے سے پہلے پہلے پریس کانفرنس میں حاضر جناب کے لیے ہاتھ بلند کررہی تھیں۔ کمشنر کی پریس کانفرنس سے ایک دن پہلے منظرنامہ یہ تھا کہ پیپلز پارٹی کہہ رہی تھی کہ ہم کو وفاقی حکومت کا حصہ نہیں بننا ہے نوازشریف فرمارہے تھے کہ ہم سخت معاشی فیصلوں کا کانٹوں بھرا ہار اپنی گردن میں نہیں ڈالیں گے اور حکومت نہیں بنائیں گے۔ یہ خیال ہے محال ہے اور جنون ہے۔ اگر ایسا ہی ہوتا اور دونوں جماعتیں اپنے اپنے فرمودات کے مطابق گھر کی راہ لیتیں تو پورا سسٹم ہی گر جاتا اور کولیپس کر جاتا۔ کمشنر کی پریس کانفرنس دونوں جماعتوں کے لیے اشارہ تھی کہ الیکشن چیلنج ہورہے ہیں، یہ چیلنج کی طوفانی کروٹوں کی پہلی کروٹ ہے، کل اور بھی لوگ چیلنج کرنے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ سب سے زیادہ پریشانی کا سامنا ن لیگ کو کرنا پڑتا ان کی گیارہ سیٹیں تھیں۔ اس پیغام کے بعد سب کے غباروں سے ہوا نکل گئی۔ نواز شریف اور عزیزی بلاول کی طرف سے بیانات کی سختی ریشم ریشم ہوگئی۔ اگلے ہی دن سب نہ صرف یہ کہ انسان کے بچے بن گئے بلکہ فرماں بردار، اطاعت گزار۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے مانیں یا نہ مانیں کمشنر کی پریس کانفرنس کے بعد ضرور مان جاتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی عظمت کو سلام۔

وفاق میں جو نیا دربار سجایا جارہا ہے اس میں آصف علی زرداری صدر مملکت کے عہدے پر رونق افروز ہوں گے جب کہ برادر خورد شہباز شریف وزیراعظم کے عہدے پر جلوے بکھیریں گے۔ باقی عہدوں اور معاملات کے لیے بھی آرائشی لباس، وردیاں اور ان کے پہننے والے جسم تیار ہیں۔ اس اتحاد سے جس فرد مذکور کو باہر رکھا جارہا ہے اس میں پہلا نمبر نواز شریف کا ہے۔ وہ چوتھی بار وزیراعظم بننے کے لیے انگلستان سے تشریف لائے تھے۔ الیکشن مہم کے دوران بھی وزیراعظم کے عہدے کے لیے ن لیگ کی طرف سے صرف اور صرف ان کا نام سامنے آتا رہا تھا۔ 2024 کے الیکشن کے نتائج میں بھی یہ اہتمام کیاگیا ہے کہ پک اور چوز کی جو بھی صورت ہو نواز شریف وزیراعظم کے عہدے سے دور رہیں۔ الیکشن کے نتائج اس طرح ترتیب دیے گئے ہیں کہ وفاق میں ایک مضبوط حکومت نہ بن سکے جو اپنے فیصلوں میں آزاد ہو۔ نواز شریف آزادانہ فیصلوں کے تحت حکومت سازی قبول کرتے ہیں وہ مخلوط اور کمزور حکومت سے گریز کرتے ہیں۔ اس الیکشن میں نہ صرف نواز شریف کو ہروایا گیا ان کی جیت کو مشکوک بنایا گیا بلکہ رانا ثنااللہ، عابد شیر علی، جاوید لطیف سے لے کر خواجہ سعد رفیق تک ہر اس شخص کی ناکامی کو یقینی بنایا گیا جو نواز شریف سے قریب ہے۔ 2018 کے الیکشن میں بھی یہی اہتمام کیا گیا تھا کہ نواز شریف وزیراعظم نہ بن سکیں۔ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی ڈکٹیشن پر من وعن عمل نہیں کرتے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی اور ٹکرائو کی سیاست سے بھی گریز نہیں کرتے۔ دونوں الیکشنوں میں ن لیگ کو نواز شریف کے نام پر ووٹ پڑا لیکن پچھلے الیکشن میں بھی نواز شریف وزیراعظم کی دوڑ سے باہر تھے اور حالیہ الیکشن میں بھی باہر ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی عظمت کوسلام

اس باب میں کوئی دورائے نہیں کہ حالیہ الیکشن میں عمران خان کو بھر پور عوامی تائید حاصل ہوئی ہے۔ عمران خان کی شکست اور ناکامی کی تمام پیشن گوئیاں اور اندازے غلط ثابت ہوئے۔ ہر مرتبہ جب اپنی غلط عملیوں اور کرتوتوں سے وہ ناکامی کے گڑھے میں پڑے نظر آتے ہیں کوئی ایسا واقعہ ہوجاتا ہے کہ وہ پھر اہم اور فیصلہ کن شخصیت کے طور پر سامنے آجاتے ہیں اور پچھلے اندازے غلط ثابت ہو جاتے ہیں۔ اس مرتبہ الیکشن کے ہنگام عمران خان جیل میں تھے، انتخابی نشان تو کجا ان کی جماعت کا نام بھی موجود نہیں تھا، ان کے کارکنان اور رہنما زیر حراست تھے، پارٹی رہنمائوں کی بڑی تعداد سیاست سے کنارہ کش ہو چکی تھی یا دوسری جماعتوں میں شامل ہو چکی تھی، جلسے تو درکنار انتخابی ریلیاں نکالنے اور کارنر میٹنگ کرنے کی ان کے ورکروں کو اجازت نہیں تھی لیکن اس کے باوجود عمران خان کے امیدواروں نے کاسٹ کیے ووٹوں کا ایک تہائی حاصل کیا۔ ان کی نشستیں سب سے زیادہ ہیں۔ اس کے باوجود جس فرد مذکور کو حکومت سازی اور وزیراعظم کی دوڑ سے باہر رکھا گیا ہے عمران خان اس میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ عمران خان وہ تبدیلی ہیں جسے بڑے چائو اور شوق سے دو جماعتی انتظام کے خلاف تیار کیا گیا تھا لیکن اب یہ تبدیلی چونکہ اسٹیبلشمنٹ کے گلے پڑ چکی ہے، وہ مسلسل اسٹیبلشمنٹ سے تصادم اور ٹکرائو کی راہ پر ہیں اس لیے الیکشن میں بہترین کارکردگی اور سب سے بڑا ووٹ بلاک ہونے کے باوجود حکومت سازی سے کوسوں دور ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی عظمت کو سلام۔

جے یو آئی قومی اسمبلی میں مجموعی طور پر چار، بلوچستان اسمبلی میں 11 اور خیبر پختون خوا اسمبلی میں سات نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس کے باوجود مولانا فضل الرحمن نے الیکشن کے بعد ہی اعلان کردیا تھاکہ وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھیں گے۔ انتخابی نتائج کو مجموعی طور پر مسترد کرتے ہوئے انہوں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ الیکشن کمیشن اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں یرغمال بن رہا ہے۔ ’’جے یو آئی سمجھتی ہے کہ پارلیمنٹ اپنی اہمیت کھو بیٹھی ہے اور جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہی ہے‘‘۔ ’’اگر اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ الیکشن صاف شفاف ہوئے ہیں تو پھر اس کا معنی ہے کہ فوج کا نو مئی کا بیانیہ دفن ہو چکا اور عوام نے ان کے غداروں کو مینڈیٹ دیا ہے‘‘۔ مولانا فضل الرحمن الیکشن کے بعد زور دے کر کہہ چکے ہیں کہ ان کی جماعت پارلیمانی سیاست سے دستبردار ہوکر عوامی جدوجہد کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے پاک ماحول میں عوام کی حقیقی نمائندگی کی حامل اسمبلیوں کے انتخابات چاہتی ہے۔ مولانا اسٹیبلشمنٹ سے تصادم کی جس راہ پر دوڑے جارہے ہیں اس کا نتیجہ ہے کہ قومی اسمبلی کی چار نشستوں کے باوجود ان کا انتخابی اتحاد میں کوئی حصہ نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی عظمت کو سلام۔ نواز شریف، عمران خان اور مولانا فضل الرحمن تینوں اسٹیبلشمنٹ کے لیے ’’ٹربل میکر‘‘ ہیں اور تینوں حکومت سے باہر ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی عظمت کو سلام۔

نئی وفاقی حکومت کے انتظامات میں وہ لوگ شامل ہیں جو اسٹیبلشمنٹ سے صلح جوئی کا رویہ رکھتے ہیں، جو اسٹیبلشمنٹ سے تصادم سے گریز کو فلاح کی راہ تصور کرتے ہیں، جو اسٹیبلشمنٹ کے کاموں میں روڑے نہیں اٹکاتے، مزاحمت نہیں کرتے، جو ایکسٹینشن دینے پر یقین رکھتے ہیں۔ آصف علی زرداری جب پچھلی مرتبہ صدر تھے تو انہوں نے جنرل کیانی کو بلا کسی پس وپیش کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں ایکسٹینشن دلوائی تھی۔ جنرل شجاع پاشا جو کہ ڈی جی آئی ایس آئی تھے ان کے دور میں انہیں بھی دو مرتبہ ایکسٹینشن ملی۔ وہ اسٹیبلشمنٹ سے ساتھ مل کر چلتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گزشتہ سولہ مہینوں میں یہی رویہ شہباز شریف کا رہا۔ انہوں نے کسی ایک موقع پر بھی اسٹیبلشمنٹ کے کسی ایک قدم کے خلاف نا گواری تو رہی ایک طرف پیشانی پر شکن بھی نمودار نہیں ہونے دی۔ ایم کیو ایم سمیت نئی وفاقی حکومت ان لوگوں پر مشتمل ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے باب میںصرف یس باس کا رویہ نہیں رکھتی بلکہ اسے اصول کے طور پر جسم وجان کا قلعہ تصور کرتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی عظمت کو سلام۔