کیا پاکستان کے الیکشن میں اسلام ہار گیا؟

472

اگر پاکستان میں آج بھی ریفرنڈم کرا لیا جائے کہ آپ اسلام اور لبرلزم میں کس کا انتخاب کریں گے تو 98 فی صد لوگ اسلام کے حق میں ہی ووٹ دیں گے۔ لیکن برطانوی طرز کی انتخابی سیاست میں ان اسلامی جماعتوں کو جو دین اسلام کو ریاست کا دین، اور شریعت اسلامی کو عدالتی شریعت بنانا چاہتے ہیں وہ ووٹ حاصل نہیں کر پاتیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ ایک وجہ تو یہ ہے کہ ریاست کے تمام اداروں اور ابلاغیہ کا یہ بیانیہ سامنے ہوتا ہے کہ حکومت بنانے کے لیے مقابلہ صرف دو کے مابین ہے۔ دونوں کا منشور تقریباً ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔ تو یہ اسلام پسند عوام یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ اس میں کم تر برائی کون ہے۔ نیکی کی کوئی امید، کوئی موہوم سی امید بھی جس سے ہوتی ہے، اسے ووٹ ڈال کر آجاتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ کسی حقیقی اسلامی جماعت کو ووٹ دینے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے ووٹ کو ضائع کر دینا۔ یہ بھی واضح رہے کہ70 فی صد سے زیادہ لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے نکلتے ہی نہیں ہیں۔ بعض اوقات یہ تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ عوام کی اکثریت جذباتی اسلام کی شیدائی ہے نہ کہ حقیقی اسلام کی۔ نفاق کی یہ بیماری صدیوں پرانی ہے۔ یہ بیماری مغلیہ سلطنت میں ہی پک گئی تھی، برطانوی دور غلامی میں یہ بیماری لاعلاج نظر آنے لگی۔ پاکستانی عوام اور خواص میں نفاق کا یہ عارضہ ریاست کے چہرے کو منافق چہرہ بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اللہ کی کتاب کی حرمت پر جان دینے والے بہت ہیں لیکن اس کتاب پر عمل کرنے والے بہت کم۔ اور محمد رسول اللہؐ کی محبت میں شہید ہونے والے بہت ہیں لیکن ا ن کی سنت پر عمل کرنے والے کم۔
جذباتی اسلام سے متاثر عام لوگ ہی نہیں بلکہ اس سے متاثر بعض علماء، دانشور، اورصحافی بھی ہوتے ہیں۔ اگر اسلام کسی کھمبے یا درخت پر بھی لکھ دیا جائے تو یہ لوگ ’’ہائے میرا اسلام‘‘ کہہ کر اس سے لپٹ جائیں گے اور جذبات میں روئیں گے اور آنسو بہائیں گے۔ شہید محمد صلاح الدین سابق مدیر تکبیر، کراچی، پہلے ضیاء الحق کے اسلام کے کھمبے سے، اس کے بعد نواز شریف کے کھمبے سے اپنی شہادت تک چپکے رہے۔ وہ انجانے میں اسی ’’اسلام‘‘ کے ذریعہ شہید کیے گئے جس کے تانے بانے بین الاقوامی مقتدرہ سے جڑتے تھے۔ کیونکہ کراچی شہر میں اصل اسلام اور پاکستان کے شیدائی کا وجود انہیں گوارہ نہ تھا۔ حکیم محمد سعید بھی اسی جرم عاشقی میں شہید ہوئے۔
آج کل اسلامی صحافی جناب اوریا مقبول جان صاحب عمران خان کے ’’اسلامی‘‘ کھمبے سے چپکے ہوئے ہیں۔ وہ عمران خان بمقالہ سارے کے سارے کو خیر اور شر کی جنگ بتا رہے ہیں۔ وہ جب اپنی ڈبڈباتی آنکھوں، جذباتی چہرے، اور درد بھری آواز میں اس خیر و شر کے معرکہ کا ذکر کرتے ہیں تو ان کے حال پر افسوس ہوتا ہے۔ شاید وہ بھول گئے کہ وہ تو مرحوم مولانا خادم حسین رضویؒ کے عشق میں بھی مبتلا تھے۔ جنہیں عمران خان ہی نے چھے ماہ کے لیے جیل بھیجا تھا اور اس معذور عالم دین کو سخت تکلیف کی حالت میں رکھا گیا تھا۔ آج عمران خان کو جیل کے اندر تمام سہولتیں مہیا ہیں جب کہ مولانا سے تمام سہولتیں چھین لی گئی تھیں، اور جان بوجھ کر اذیت دی گئی تھی۔ یہی وہ عمران خان ہیں جنہوں نے توہین رسالت کے جرم میں ایک سزا یافتہ مجرمہ کو جیل سے نکلوا کر ریاستی سطح پر توہین رسالت کے مجرم ملک فرانس بھیج دیا تھا۔ مولوی سمیع الحق نے جب عوامی جلسہ میں اس پر تنقید کی تو انہیں قتل کروا دیا گیا تھا۔ اور یہ وہی ’’عاشق رسول‘‘ عمران خان ہیں جنہوں نے مظاہرین سے فرانس کے سفیر کو پاکستان سے نکالنے کے کئی معاہدے کیے اور ہر بار بے عہدی کی۔ فرانس سے چند ٹکے کے تجارتی فائدہ کی لالچ پر ان کا عشق رسول قربان ہو گیا۔
اسلامی دین اور شریعت کو ریاستی دین اور شریعت بنانے کا عزم لے کر کم از کم دو جماعتیں اس بار الیکشن میں موجود تھیں۔ جماعت اسلامی پاکستان اور تحریک لبیک پاکستان۔ وفاق میں دونوں میں سے کسی کو ایک سیٹ بھی نہ ملی لیکن بعض صوبوں میں دونوں کو چند نشستیں مل گئی ہیں۔ گزشتہ انتخابات کے مقابلہ میں ان دونوں جماعتوںکو ووٹ زیادہ ملے ہیں۔ شفاف الیکشن میں ان کی وفاق اور صوبوں میں چند سیٹیں مزید ملتیں لیکن پاکستان کی مقتدر قوتوں نے جب الیکشن کو مکمل سلیکشن بنا دیا تو وہ نشستیں بھی جاتی رہیں۔ آٹھ فروری کے الیکشن میں کسی بھی جماعت کو سادہ اکثریت نہیں ملی ہے یا صحیح الفاظ میں نہیں دی گئی ہیں۔ مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بنام آزاد امیدواران، جیت کر قومی اسمبلی میں پہنچے ہیں۔ ان تینوں کے منشور میں کیا اور کتنا فرق ہے؟ پاکستان کی معیشت کے لیے کیا ان میں سے کوئی بھی آئی ایم ایف جا کر ان کی منت سماجت کرنے، ہاتھ جوڑنے، پیر پکڑنے کے علاوہ کوئی اور کام کر سکتے ہیں؟ کیا آئی ایم ایف کی غلامی امریکی غلامی نہیں ہے؟ کیا ان تینوں کی قیادت میں سے کوئی ملک کو سود سے نجات دیسکتا ہے، جو اسلامی، دستوری اور عدالتی فیصلوں کا سب سے بڑا تقاضا ہے؟ کیا تینوں میں سے کوئی پاکستان کو مغربی تہذیبی غلامی سے نجات دے سکتا ہے؟ کیا ان تینوں میں سے کوئی ملک میں عدل قائم کر سکتا ہے؟ کیا شریعت کے بغیر عدل قائم ہو سکتا ہے۔؟ کیا تینوں میں سے کوئی تعلیمی نظام کو تبدیل کر کے مقاصد ریاست سے ہم آہنگ تعلیمی نظام لا سکتا ہے؟ کیا کوئی بھی گلے سڑے ظالمانہ پولیس کے نظام کو بدل سکتا ہے؟ کیا کوئی بھی فوجی اور سول بیروکریسی کی بڑھتی ہوئی عفریت کو لگام دے سکتا ہے؟ کیا اس سیاسی اور انتخابی نظام کو جس کی خرابی کا شکار خود ان میں سے کبھی کوئی اور کبھی کوئی ہوتا ہے، اور جس کا فائدہ غیر سیاسی اداروں کو ہوتا ہے، کیا وہ اس نظام کو بھی بدل پائیں گے؟ ان سب سوالات کا جواب ایک بڑے ’’نہیں‘‘ میں ہے۔ کیونکہ تینوں کی حکومتوں کے ماضی کا تجربہ اور ان کے مستقبل کے ارادوں اور عزائم سے سب واقف ہیں۔
ایک بڑا سوال بلکہ سب سے بڑا سوال یہ ہے کیا پاکستان میں بالغ رائے دہندگان کی رائے کے صندوقچے سے اسلام برآمد ہو سکتا ہے؟ ان تمام ممالک میں جہاں بیلیٹ باکس سے نکلے اسلام نے جزوی اور وقتی کامیابی یا تبدیلی پید اکی ہے جیسا کہ الجزائر، ترکی اور مصر، ان سب کے یہاں متناسب نمائندگی اور صدارتی نظام اور دو مرحلوں کے انتخاب کا سسٹم ہے اور ترکی کے علاوہ ہر جگہ اسے بْلیٹ سے کچل دیا گیا ہے۔ ترکی میں بھی بْلیٹ کی ایک کوشش تو ہو ہی چکی ہے۔ دوسری طرف برطانوی طرز کے انتخابی نظام سے کہیں بھی کسی بھی شکل میں اسلام برآمد نہیں ہوا ہے۔ پاکستان میں انتخاب جیتنے والی کوئی لبرل جماعت اس نظام میں تبدیلی لانے والی نہیں ہے۔
پاکستان میں اسلامی تبدیلی کے لیے ایران اور افغانستان کے ماڈل کو ہی دیکھنا ہوگا۔ ان دونوں کا ماڈل ایک ہی ہے اور وہ ہے علمائے کرام کا اتحاد (جمہور علماء کا اتحاد نہ کہ جمہور عوام کا)، انہیں آگے بڑھ کر اپنے میں سے قوم کو سیاسی قیادت فراہم کرنا اور اس کے لیے تمام مطلوبہ قربانیاں پیش کرنا۔ اس کے بعد ہی عوام کی حمایت حاصل ہوگی اور اس کے بعد ہی موجودہ نظام سر نگوں ہوگا۔ پرانی امارت گرائے بغیر نئی عمارت کی تعمیر ممکن نہیں ہے۔ قرآن اور تاریخ گواہ ہے کہ مقاصد میں یکساں ایک منظم اقلیت ہی ہمیشہ غالب ہوتی ہے۔
’’بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے‘‘ (البقرہ: 249)۔