مولانا کا شہباز شریف سے گلہ بجا ہے!

470

مولانا فضل الرحمن کا شہباز شریف صاحب سے گلہ بجا ہے، جنابِ شہباز شریف ضرور ایک اچھے منتظم ہوں گے، ماضی میں انہوں نے پنجاب کی حکومت کو اچھی طرح چلایا ہے، ہر وقت متحرک اور فعال نظر آتے تھے اور لگتا تھا: اُن کی شخصیت ’مجموعۂ کمالات‘ ہے، عربی مقولے کا ترجمہ ہے: ’آزمائش کے وقت کوئی شخص عزت پاتا ہے یا بے توقیر ہوجاتا ہے‘۔ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے بعد اُن کی شخصیت کے کمزور پہلو سامنے آئے، ’ادارۂ سہولت کاری برائے خصوصی سرمایہ کاری (ایس آئی ایف سی)‘ کے قیام اور تحرُّک کی بابت آرمی چیف کو اس کا اعزاز دینا تو کسی حد تک مناسب معلوم ہوتا ہے، لیکن ایک چھوٹی سی سڑک یا پُل کا افتتاح کرتے وقت اُس کا کریڈٹ بھی سپہ سالار کو دینا عجب معلوم ہوتا ہے، شاید وہ خود بھی اسے پسند نہ کرتے ہوں، کیونکہ اس سے تو یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ایک سڑک یا پُل بھی اُن کی سرپرستی اور منظوری کے بغیر وزیر اعظم یا حکومتِ وقت نہیں بناسکتے۔

مولانا پارلیمنٹ میں اپنی نمائندگی کا حُجم کم ہونے کے باوجود گزشتہ حکومت میں ایک توانا اور مؤثر شراکت دار تھے، حتیٰ کہ جب بندیال کورٹ نے پوری سیاست اور نظامِ حکومت کو ہاتھ میں لینا چاہا تو یہ مولانا ہی تھے، جنہوں نے عدالت عظمیٰ کے قریب ایک بڑا احتجاجی اجتماع منعقد کر کے عدالت کو توانا پیغام دیا اور اس کے بعد بندیال کورٹ کسی حد تک سہم کر چلتی رہی، اگرچہ اُس کا اندازذوق کے اس شعر کا مصداق بنا رہا: ’اے ذوقؔ دیکھ، دُخترِرَز کو نہ منہ لگا ٭چھٹتی نہیں ہے منہ سے، یہ کافر لگی ہوئی ‘، نوٹ: یہاں شاعر نے شراب کو ’دُخترِ رَز‘ یعنی انگور کی بیٹی کہا ہے اور ہم نے اسے منصِبِ عدالت پر بیٹھ کر سیاست کھیلنے سے استعارہ مراد لیا ہے۔

جنابِ شہباز شریف کے وزارتِ عُظمیٰ کے دور میں دینی مدارس وجامعات کے رجسٹریشن کی بابت اُن سے مولانا فضل الرحمن نے بات کی، انہوں نے کہا: ’پہلے اسے وزارتِ مذہبی امور دیکھ لے اور اپنی سفارشات مجھے بھیجے‘، اُس وقت کے وزیرِ مذہبی امور مفتی عبدالشکور صاحب نے اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان اور متعلقہ اداروں کا اجلاس بلایا اور متفقہ سفارشات وزیر اعظم کو بھیجیں۔ وزیر اعظم کے ساتھ ہمارے دو اجلاس ہوئے، وزیر اعظم نے وزارتِ مذہبی امور کی تجویز سے اتفاق کیا، لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہوا، اُس کے بعد دوبارہ اُن کی صدارت میں اجلاس ہوا اور اُس کے فیصلے پر بھی آخرِ کار عمل درآمد نہ ہوسکا۔ وہاں ہم نے یہ منظر دیکھا: وفاقی وزیرِ تعلیم رانا تنویر حسین اپنی جماعت کے صدر اور اپنے وزیرِ اعظم کے موقف کی حمایت کرنے کے بجائے وہ اس موقف کی حمایت اور ترجمانی کرنے لگے جو ادارے کے ایک افسر نے کراچی سے جاکر انہیں بریف کیا تھا۔ صرف رانا ثناء اللہ صاحب نے واضح موقف اختیار کیا، چنانچہ وزیر اعظم کو کہنا پڑا: ’ہمارے اپنے لوگ ہمارے طے شدہ موقف کے خلاف بات کر رہے ہیں‘، الغرض اس فیصلہ کُن اجلاس کا بھی کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا، کیونکہ رانا تنویر حسین نے ’رجالِ غیب‘ سے جو بریفنگ لی تھی، اُس کے تحت کہا: ’ہمارے ساتھ تیرہ ہزار مدارس رجسٹرڈ ہیں‘، میں نے اُن سے کہا: رانا صاحب! آپ کا حلقہ ٔ انتخاب ضلع شیخوپورہ ہے، آئیے! یہیں سے اٹھ کر جاتے ہیں، ہم آپ کو بتائیں گے: ہمارے ساتھ رجسٹرڈ مدارس برسرِ زمین کون کون سے ہیں اور اُن میں طلبہ و طالبات کی تعداد کیا ہے، آپ بھی اپنے رجسٹرڈ مدارس ہمیں ضرور دکھائیے گا، اگر وہ سب مل کر ہمارے ایک ادارے جامعہ نظامیہ رضویہ شیخوپورہ کے برابر ہوجائیں تو ہم آپ کو اعزازی شیلڈ دیں گے، مگر انہوں نے میری پیش کش کو قبول نہ کیا۔ ظاہر ہے: جو نظام فائلوں پر چل رہا ہو اور برسرِ زمین سب کچھ اس کے برعکس ہو، تو وہ کسی کو کیا دکھائیں گے۔ وزارتِ تعلیم میں مدارس کے لیے جو سیل بنایا گیا ہے: سوائے اس کے کہ ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر اور چند لوگوں کو نوکری مل گئی ہے، باقی اُس کا کوئی کام نہیں ہے، لیکن اس کے لیے یقینا بجٹ میں حصہ مختص ہوگا۔ مزید یہ کہ وزارتِ تعلیم کے ساتھ جو مدارس رجسٹرڈ ہیں، ایک بار رجسٹریشن کے بعد اُس سیل کا ان مدارس سے کوئی تعلق اور لینا دینا نہیں ہے، پس اس سیل کی کارکردگی کیا ہے: ’کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا‘۔

مولانا فضل الرحمن نے حکومت کے آخری ایام میں پھر کوشش کی کہ وزیر ِ اعظم اپنا وعدہ پورا کریں، ہمیں تو نہیں بلایا گیا، لیکن مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کو بلایا گیا۔ انہوں نے اداروں کے سربراہان سے بھی ملاقاتیں کیں، آخرِ کار ایک فارمولے پر اتفاق ہوگیا، پھر اُن سے کہا گیا: اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کی باقی رکن تنظیمات سے بھی اس کی منظوری لے لیں، مولانا محمد حنیف جالندھری نے مجھے مسوّدۂ قانون بھیجا، اس کے باوجود کہ مجھے اس کے بعض مندرجات سے اتفاق نہیں تھا، میں نے تنظیم المدارس اہلسنّت پاکستان کے صدر اور اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے اس کی توثیق کی تاکہ حجت پوری ہوجائے۔ لیکن اس کے باوجود کہ آخری دنوں میں درجنوں نامعلوم یونیورسٹیوں کے چارٹر پارلیمنٹ سے پاس کیے گئے، نیز جلد بازی میں بہت سے قوانین منظور کیے گئے، مگر وزیر اعظم اس قانون کو پاس نہ کراسکے اور اُن کے سارے عہد وپیمان دھرے کے دھرے رہ گئے۔ مولانا فضل الرحمن کو بھی اپنے حلقے میں یقینا سُبکی کا سامنا کرنا پڑا ہوگا، ہمیں خود انتہائی افسوس ہوا، اب جو وزیر اعظم اتنا کمزور ثابت ہو، وہ کسی اور کے سائے تلے تو کام کرسکتا ہے، لیکن اپنی ترجیحات پر اُس سے کام کرنے کی توقع رکھنا عبث ہے۔ پس مولانا کے اس تجربے کے ہم بھی شاہد ہیں، حالانکہ جب کسی اور کے کہنے پر وہ درجنوں قوانین پارلیمنٹ سے منظور کراسکتے تھے، تو انہیں اپنے قول وقرار کا بھی پاس رکھنا چاہیے تھا، مولانا فضل الرحمن کو جو تلخ تجربہ ہوا، شاید مسلم لیگ ن کے بہت سے لوگوں کو بھی اس کا علم نہیں ہوگا۔

اس کے برعکس پی ڈی ایم حکومت کے آخری ایام میں بلاول زرداری نے سوات کے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کو متنبہ کیا: ’اگر سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں کے لیے رقوم واگزار نہیں کی گئیں، توہم حکومت سے علٰیحدہ ہوجائیں گے‘، تو وزیر اعظم نے جاتے جاتے سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں کے لیے پچیس ارب روپے کی رقم جاری کردی، سو دبائو میں تو وزیر اعظم کو کام کرنے پڑتے تھے، لیکن باوقار انداز میں اعتماد کرتے ہوئے جو شراکت دار اُن سے تقاضا کررہے تھے، اُس کا حشر آپ کے سامنے ہے۔

اس وقت وفاقی حکومت کے جس تخت پر شہباز شریف صاحب بطورِ وزیر اعظم متمکن ہونے کی تیاری فرمارہے ہیں، وہ کانٹوں کی سیج ہے، بہت سے غیر مقبول اور ناگزیر فیصلے کرنے ہوں گے۔ ان میں آئی ایم ایف کے درِ دولت پہ سجدہ ریز ہونا بھی شامل ہے، چھے ارب ڈالر کے تین سالہ پیکیج کے لیے درخواست پہلے سے تیار ہے، گویا: ’سرمنڈاتے ہی اولے پڑیں گے‘، اُن کی سخت شرائط کے آگے سرنگوں ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا اور ان شرائط کی تکمیل کے بعد منہگائی کا ایک نیا سیلاب آئے گا۔ قومی معیشت پر بوجھ بننے والے قومی اداروں کی نجکاری بھی اہم مسئلہ ہے، عام طور پر جو جماعتیں حزبِ اختلاف میں ہوں، وہ اس کی مخالفت کرتی ہیں، نیز مقتدرہ کے لیے اٹھارہویں ترمیم بھی مسئلہ ہے۔ اس کا ایک ہی حل ہے: تینوں بڑی جماعتوں پر مشتمل قومی حکومت بنائی جائے اور تینوں مل کر قومی مفاد میں مشکل اور غیر مقبول فیصلے کریں اور اُس کی ذمے داری بھی قبول کریں۔ خان صاحب نے بھی اپنے ترجمانوں کے ذریعے پہلی بار ’مفاہمت وصداقت‘ کے فارمولے کا اشارہ دیا ہے، بہتر ہوگا کہ یہیں سے آغاز کردیا جائے۔ ہوسکتا ہے: کوئی جماعت کہے: ہم یہ ملامت اپنے سر کیوں لیں، تو حضور والا! جب آپ اُس ملک پر حکومت کرنا چاہتے ہیں جو سیاسی انتشار کے ساتھ ساتھ بدترین اقتصادی بحران سے بھی دوچارہے، تو اس کی ڈوبتی ہوئی نیّا کو کنارے لگانا اور اقتصادی بدحالی کے منجدھار سے نکالنا بھی آپ سب کی ذمے داری ہے۔ یہ شعار تو درست نہیں ہے: ’میٹھا میٹھا ہَپ ہَپ، کڑوا کڑوا تھو تھو‘، یہ مفاہمت ضروری ہے، خواہ پارلیمنٹ کے اندر ہو یا باہر، ورنہ استحکام نہیں آئے گا۔