ڈبویا مجھ کو ہونے نے

429

غالب کہتا ہے ’’ڈبویا مجھ کو ہونے نے‘‘ ہم بھی یہی کہہ رہے ہیں ’’ڈبویا 2024 کے الیکشن کے ہونے نے‘‘۔ زندگی پہلے ہی کس قدر مضحکہ خیز تھی اب مزید مضحکہ خیز ہوگئی ہے۔ جو یوں ہوگا تو کیا ہوگا، جو یوں نہ ہوگا تو کیا ہوگا؟ جمہوریت نے اس بار بھی ہم سے مذاق کیا ہے؟ امریکا، برطانیہ، بھارت، بنگلا دیش، ایران انڈونیشیا اور نہ جانے کہاں کہاں 2024 میں الیکشن ہورہے ہیں۔ اس دوڑ میں ہم بھی شامل ہیں۔ صد شکر کہ جمہوریت نے ہمیں یہ اعزاز بخشا۔ لیکن شاید ہم جمہوریت کے قابل ہی نہیں یا پھر معاملہ برعکس ہے جمہوریت اس قابل نہیں کہ ہمارا نظام زندگی ہو۔ کہیں نہ کہیں تو کچھ نہ گڑ بڑ ہے۔
جمہوریت ایسا نقاب نہیں ہے جسے ہم پہن لیں تو دنیا کی نظر سے غائب ہو جائیں۔ ہمارے تضادات فنا ہوجائیں۔ ہم سات دنیائوں کے تاجدار بن جائیں۔ ہمارے جھوٹ، فریب، دھوکے بازیاں اور چال بازیاں ختم ہو جائیں۔ جیسے ہم ہیں ویسی ہی ہماری جمہوریت ہے۔ جیسے ہم ہیں ویسے ہی ہمارے الیکشن ہیں۔ جیسے ہم ہیں ویسے ہی ہمارے فارم 45اور 47ہیں۔ جمہوریت کے بدبودار نظام کے جھوٹ، فریب، دھوکے بازیاں، چالبازیاں اور مکاریاں ہمارے جھوٹ، فریب، دھوکے بازیوں اور چالبازیوں میں مکس ہوتے ہیں تو تعفن کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
ہم زمین پر رینگتے کیڑے مکوڑوں کا وہ جم غفیر ہیں جنہیں اپنے اچھے اور برے کا کوئی شعور نہیں۔ جمہوریت ہمارے لیے درآمد تو کردی گئی ہے لیکن اونچے سنگھاسنوں پر بیٹھے ہمارے محسنوں کو خبر ہے کہ ہم جمہوریت کے لیے نہیں بنے۔ اس لیے ہمارے تمام فیصلے انہوں نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھے ہیں۔ ہمیں کتنا جینا ہے اور کس معیار کا جینا ہے اس کا تعین وہی کرتے ہیں۔ ہمیں کتنا آٹا، دودھ، تیل، گوشت، دالیں، پٹرول، بجلی اور گیس میسر آنا ہے اس کا فیصلہ بھی یہی دیدہ ور کرتے ہیں۔ اگر 2018 کے الیکشنوں کا فیصلہ انہوں نے کیا تھا تو 2024 کے الیکشن کا فیصلہ بھی انھی کو کرنے دیجیے۔ اگر 2018 کے الیکشن کا فیصلہ درست تھا تو 2024 کا فیصلہ بھی وہ درست ہی کریں گے۔ اس پر شور کیسا؟ ہنگامہ کیوں برپا ہے۔
اس کم زور فصل میں جتنے سربلند خوشے ہیں سب ایک ہی درخت کے ہیں۔ سب ایک ہی درخت کے نمائندے ہیں۔ سب حکمران طبقوں کے مختلف دھڑوں کے نمائندے ہیں۔ تحریک انصاف ہو، ن لیگ ہو یا پیپلزپارٹی سب عوام دشمن قوتوں کی نمائندہ ہیں۔ کس کے دور میں کراہتے ہوئے عوام کے دکھوں میں کمی آئی ہے؟ کس کے دور میں کھیت لہلہائے ہیں، ہر بیج سے ایک نئے خوشے نے جنم لیا ہے۔ کس کے دور میں عوام کے خون چوسنے میں کمی آئی ہے جواب کسی ایک کے لیے اصرار کیا جارہا ہے۔ کیا یہ سب آزمائے ہوئے نہیں ہیں۔ کیا یہ سب عالمی مالیاتی اداروں، سرمایہ داروں جاگیرداروں وڈیروں اور عوام دشمن قوتوں کے نمائندے نہیں ہیں۔ ان کے ایک دوسرے پر گھنائونے الزامات عائد کرنے پر مت جائو ان سب کی سیاست کا محور اس سرمایہ دارانہ نظام کی بقا ہے یہ نظام جس کا نمائندہ اور آلہ ہے۔
یہ تمام جماعتیں ایک ہی ہیں۔ ان میں مختلف لیڈرز اور ان کی شخصیتوں کے خول وہ قید خانے ہیں جن میں انہوں نے اپنے اپنے ووٹرز کو قید کررکھا ہے۔ ان ووٹرز کو اتنا فریب دیا گیا ہے اتنا بے وقوف بنایا گیا ہے کہ اب ان میں سکت ہی نہیں کہ ان لیڈروں کے علاوہ کچھ سوچ سکیں، ان لیڈروں کے سچ جھوٹ میں تمیز کرسکیں۔ یہ لیڈر نہیں وہ آتمائیں ہیں جنہوں نے عوام کو قابو کررکھا ہے۔ یہ عوام کے لیے نہیں بلکہ اقتدار کی ہڈی کے لیے ایک دوسرے پر بھونک رہے ہیں۔
پچھلے الیکشنوں میں ایک بہت بڑے فراڈ اور دھوکے کے ذریعے تحریک انصاف کو فتح دلوائی گئی تھی اس الیکشن میں ایک بہت بڑے فراڈ اور دھوکے کے ذریعے اسے شکست دلوائی گئی ہے۔ گزشتہ الیکشنوں میں کم ٹرن آئوٹ، جھوٹے اعداد وشمار اور جعلی ووٹوں کے ذریعے تحریک انصاف کو فتح دلوائی گئی تھی اس مرتبہ کم ٹرن آئوٹ، جھوٹے اعداد وشمار اور جعلی ووٹوں کے ذریعے ن لیگ اور دیگر جماعتوں کو فتح دلوائی گئی ہے۔ اس یکسانیت کے علاوہ بھی ان میں سب کچھ مشترک ہے۔ تحریک انصاف اقتدار میں لائی جائے یا ن لیگ سب کو وہی عوام دشمن پالیسیاں نافذ کرنی ہیں جو پچھلے ستر برسوں سے نافذ کی جارہی ہیں۔ سب کو اقتدار میں آکر آئی ایم ایف کی غلامی کرنی ہے۔ عمران خان آئے یا شہباز شریف دونوں کو پٹرول، ڈیزل، بجلی، گیس اور دیگر اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہے، سرمایہ داروں کو نوازنا ہے اور عوام کو کچلنا ہے۔ فرق کچھ نہیں۔ لوگ بلاوجہ ہلکان ہورہے ہیں۔ چہرے نہیں نظام کو بدلو۔ تب ہی کچھ حاصل ہوگا ورنہ سب فریب سب دھوکا۔
اس نظام میں روز بروزعوام کے اوپر بوجھ میں اضافہ ہورہا ہے۔ وہ آزادی سے محروم ہورہے ہیں۔ وہ مفلوج ہوتے جارہے ہیں۔ وہ کسی جماعت میں موجود نہیں۔ ان کی کوئی جماعت نہیں۔ وہ اقتدار کی دوڑ سے باہر ہیں۔ جیل کے اندرسے بھی انہیں الیکشن میں حصہ لینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ ان کا انتخابی نشان کسی جھنڈے، کسی بینر کسی بیلٹ پیپر پر موجود نہیں۔ ان کا انتخابی نشان روٹی کا وہ لقمہ ہے جو انہیں بمشکل ہی نصیب ہوتا ہے۔ ان کا انتخابی نشان کپڑے کا وہ ٹکڑا ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کافی نہیں۔ ان کا انتخابی نشان وہ گھر ہے جو بے درو دیوار سا ہے جس کی چھت نہیں اور اگر ہے تو انہیں تحفظ دینے سے قاصر ہے۔ یہ سب رنگ باز جو تحریک انصاف کے ہوں، ن لیگ کے یا پیپلزپارٹی کے ان میں سے کسی کی ترجیح یہ عوامی ضروریات نہیں ہیں۔ یہ جھوٹے اور خائن لاکھوں نوکریوں کروڑوں گھروں کے محض وعدے کرکے عوام کو بے وقوف بناسکتے ہیں اور بس۔
سوچیے! آخر الیکشن میں کامیابی کس چیز کا نام ہے؟ کیا عمران خان کی کامیابی الیکشن میں کامیابی ہے؟ کیا نواز شریف کی کامیابی الیکشن میں کامیابی ہے؟ کیا زرداری اور بلاول کی کامیابی الیکشن کی کامیابی ہے؟ کیا یہ لوگ پچھلے ادوار میں الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے اقتدار حاصل نہیں کرچکے۔ ان ادوار میں انہوں نے کیا ثابت کیا سوائے اس کے کہ وہ اور ان کی جماعتیں جرائم پیشہ افراد کے ایسے گروہ ہیں جن کے اقتدار میں آنے کا مقصد صرف اور صرف عوام کو لوٹنا اور کھسوٹنا ہے۔ یہ کثرت کی ہوس کے مارے ہوئے لوگ ہیں ورنہ ان کے پاس کیا نہیں ہے۔ محلات، ہیرے، سونا چاندی، لگژری گاڑیاں، دنیا بھر میں عالی شان ہوٹلوں میں قیام کی سہولتیں، عالی شان بنگلے اور وہ سب کچھ جو خیال وخواب کی دسترس میں آسکتا ہے۔ پھر انہیں حکومت کس لیے چاہیے؟ طاقت، اقتدار اور کثرت کی خواہش کے لیے، عوام کو لوٹنے اور کچلنے کے لیے۔ ان جماعتوں کے بانیوں، لیڈروں، وزیر وزراء اور سیاسی کارکنان ذاتی مفاد کے علاوہ کس لیے ان پارٹیوں میں شریک ہوئے ہیں۔ صرف اور صرف ذاتی مفاد کے لیے۔ اگر کسی کو اس میں شک ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے دماغ کا علاج کروائے۔