الیکشن کے کاندھے پر سر رکھے سسکیاں لیتے لوگ

495

آخری حصہ
حکومت سازی کے لیے تحریک انصاف کا ن لیگ یا پیپلز پارٹی سے اتحاد ایک ایسا امکان ہے بطور لطف لینے کے بھی جس کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ اگر کوئی امکان ہے تو وہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کا ہے۔ زرداری صاحب کی پی ایچ ڈی سیاست اور سخت بارگیننگ کی عادت کے پیش نظر کہا جارہا ہے کہ ن لیگ دیگر آپشنز پر بھی ہوم ورک کررہی ہے۔ ان کے پاس 74کے قریب سیٹیں ہیں، ایم کیو ایم کی 17سیٹیں، ق لیگ کی 3، آئی پی پی کی 2 اور بی این پی کی ایک سیٹ ملاکر 97 کے قریب سیٹیں بنتی ہیں۔ جمیعت علماء اسلام کی 3سیٹیں ملائیں تو 100 کے قریب سیٹیں بنتی ہیں۔ (جے یو آئی نے حکومت شامل نہ ہونے کا اعلان کر دیا ہے) مسئلہ آزاد امیدواروں کی شمو لیت کا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ دس بارہ کے قریب آزاد امیدوار رابطے میں ہیں لیکن پھر بھی چالیس کے قریب آزاد امیدوار جنگل میں بھٹکنے سے بچنے کے لیے ضروری ہیں۔ ان کے بغیر ن لیگ کی حکومت نہیں بن سکتی چاہے آزاد امیدوار کسی لالچ کے تحت آکر ملیں یا پھر ’’کسی طرف سے‘‘ پڑنے والے دبائو کے نتیجے میں۔ پھر جتنے زیادہ آزاد امیدوار ن لیگ کو جوائن کریں گے ن لیگ کی ریزرو سیٹوں میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ یاد رہے قومی اسمبلی میں ریزرو سیٹیں ملاکر کل سیٹوں کی تعداد 342 ہے۔ کسی بھی جماعت کو حکومت بنانے کے لیے 172 نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ن لیگ کی حکومت نہیں بنتی تو آزاد امیدواروں کی شمولیت سے بہرحال ن لیگ کی بارگیننگ پوزیشن بہتر سے بہتر تر ہو جائے گی۔
آرمی چیف کی طرف سے پیغام ہے کہ محب وطن جماعتیں مل کر حکومت بنائیں۔ بہرحال ایک مخلوط حکومت ترتیب دینا پڑے گی کیونکہ اس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کے سرپٹ دوڑتے گھوڑوں کی طاقت ہے۔ اسٹیبلشمنٹ زیادہ عرصے غیر یقینی صورتحال اور عدم استحکام کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ ان کی کوشش یہی ہوگی کہ جلداز جلد حکومت سازی کا عمل مکمل ہو اور حالات نارمل انداز میں چلنا شروع ہوں۔ یقینا ن لیگ، پیپلزپارٹی اور اسٹیبلشمنٹ باہم رابطے میں بھی ہوں گی اور باہم مذاکرات میں بھی۔
پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار اس کوشش میں ہیں کہ کوئی پارٹی کرائے پر حاصل کرلیں یا کسی پارٹی کی گود میں سما کر اس کا نام اپنے نام کرلیں اور پھر اسی نام کو لے کر وہ پارلیمنٹ میں جائیں، ریزرو سیٹوں میں بھی اپنا حصہ وصول کریں اور پھر حکومت بنانے کی کوشش کریں۔ تاہم اس کے باوجود بھی انہیں اتحادیوں کی ضرورت ہوگی۔ یوں پی ٹی آئی کے لیے تنہا حکومت بنانا بہت مشکل ہے لیکن وہ اس مقام تک ضرور پہنچ جائیں گے کہ حکومت سازی اولین طور پر ان کا حق قرار دی جائے۔ ممکن ہے صدر علوی بھی انہیں حکومت سازی کی دعوت دے دیں۔ اس صورت میں معاملہ دو تین ہفتے کے لیے لٹک سکتا ہے، معاملات عدالتوں کی راہداریوں میں گھو میں گے اور غیر یقینی حد کمال کو پہنچ جائے گی۔ اگر عمران خان کا اسٹیبلشمنٹ سے حساب چکانے کا موڈ ہوگیا تو وہ تا خیری حربے استعمال کرکے معاملات کو مزید التوا میں ڈال سکتے ہیں۔ پھر اسٹیبلشمنٹ، عدالتیں اور پی ٹی آئی ایک ایسی تکون بن جائے گی جس کے ہرزاویے اور ہر ضلع کا عنوان مزید ٹکر اور مزید محاذ آرائی ہوگی اس کے بعد اس ملک میں ہر سو بحران ہی بحران ہوں گے۔
ذوالفقار علی بھٹو وہ پہلے پاپولسٹ لیڈر تھے جن کے ساتھ عدلیہ کا سلوک بہت برا توہین آمیز اور انتقامی تھا۔ عمران خان اس معاملے میں بہت خوش نصیب ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے جج حضرات لگ بھگ ایک عشرے سے ان کے پسینے پر انصاف کا خون بہا رہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آمد کے بعد حالات ان کے لیے نا خوش گوار ہوئے لیکن حالیہ انتخابات میں جو انہیں بڑی عوامی پذیرائی ملی ہے ممکن ہے جج بھی اس عوامی دبائو کی زد میں آجا ئیں کیونکہ جج بھی تو بہرحال عوام میں سے ہی ہیں۔ ججوں کی اکثریت پہلے بھی عمران خان کے حق میں تھی، اسی طرح اسٹیبلشمنٹ کے اندر بھی ریٹائرڈ فوجیوں اور ان کے اہل خانہ کی اکثریت عمران خان کی حامی ہے۔
حکومت سازی کے مر حلے میں اگر عدلیہ پر بھروسا کرتے ہوئے عمران خان نے نو مئی کا بدلہ لینے کے لیے مزید ٹکر لینے کا فیصلہ کیا اور عدلیہ نے ماضی کی طرح ایک بار پھر عمران خان کے حق میں فیصلے دینے شروع کردیے تو صورتحال اتنی گمبھیر اور پیچیدہ ہوجائے گی کہ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کیا ہو۔ ضروری ہے کہ عمران خان سے رابطے کیے جائیں اور مسائل کے حل میں انہیں بھی شریک کیا جائے۔ اس وقت بہر حال پی ٹی آئی اپنی طاقت کی انتہائوں پر ہے۔ عوامی طاقت کے زعم میں عمران خان کو بچانے کے لیے اگر پی ٹی آئی نے مزید ٹکر لینے کی راہ اپنائی تو کس قیامت کی غیر یقینی حالات ہوں گے اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔
اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو لاکر جس تھرڈ پارٹی سسٹم کی بنیاد رکھی تھی تا کہ دو پارٹی سسٹم سے نکل سکیں وہ ان کے گلے پڑ گیا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ وہ اس سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو عوام اس راہ میں مزاحم ہیں۔ عوام بھٹو صاحب کی طرح عمران خان کو عدالتی فیصلوں کی بھینٹ چڑھتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے۔ ماضی کی راہ پر چلتے ہوئے جس طرح اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو راہ سے ہٹانا چاہتی ہے الیکشن نتائج نے بظاہر اس منصوبے کو ناکام بنادیا ہے۔ آج عملی صورتحال یہ ہے کہ لوگ عمران خان کے حامی ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے مخالف۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو حکومت کرنے کا موقع دیا جائے تب ہی لوگ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہوسکتے ہیں۔
اپریل 23 تک محض پونے چارسال کی حکومت نے عوام میں عمران خان کے لیے شدید غم وغصہ پیدا کردیا تھا۔ اس وقت اگر مداخلت نہ کی جاتی تو ٹرم پوری ہونے تک لوگ عمران خان کو خود ہی نکال باہر کردیتے۔ اپریل 2022 میں صورتحال یہ تھی کہ عمران خان کے الیکٹیبلز ڈھونڈتے پھر رہے تھے کہ دوسری کون سی پارٹی جوائن کریں۔ عمران خان نے جس بدترین طریقے سے معیشت چلائی تھی خود ان کے اپنے لوگ ان سے ناراض تھے۔ خود کے پی کے لوگ حیران تھے کہ ملک میں کیا ہورہا ہے۔ لیکن عمران خان کو نکال کر اسٹیبلشمنٹ نے عوام کے غصے کا رخ عمران خان کی طرف سے ہٹاکر اپنی طرف موڑ لیا ہے۔ اندازہ کیجیے اگر پی ٹی آئی اور عمران خان کی راہ میں اتنی رکاوٹیں حائل نہ کردی جاتیں تو نتائج موجودہ نتائج سے کہیں زیادہ عمران خان کے حق میں ہوتے۔ عمران خان کو موقع دینا پڑے گا۔ تب ہی عوام دوباہ عمران خان کو چھوڑ کر آپ کی طرف مائل ہوسکتے ہیں۔