طاقت کے کھیل کے ڈھکوسلے

451

چھے دن میں تین مقدمات میں عمران خان کو 31برس کی سزائیں۔ ریاستی راز ظاہر کرنے پر سائفر کیس میں دس برس کی سزا، توشہ خانہ کیس میں بدعنوانی پر چودہ برس اور عدت میں نکاح کیس میں سات سات برس کی سزائیں۔ القادر ٹرسٹ اور نو مئی کے مقدمات میں فیصلے ابھی باقی ہیں۔ وجہ اس جلد بازی کی 8مئی کے الیکشن کے حوالے سے وہ پیغام بیان کیا جارہا ہے جس میں عمران خان کی اب مستقبل کی ملکی سیاست میں گنجائش اور کارگزاری کم کم اور بہت ہی کم رہ گئی ہے اور اس بات کا ان کے ووٹرز اور سپورٹرزکو یقین ہی نہیں کامل یقین آجانا چاہیے۔ عمران خان جب گرفتار کیے گئے اور وہ ریڈلائن کراس کرلی گئی جسے عمران خان کی گرفتاری سے مشروط کیا جاتا تھا تب بھی ان کے ووٹرز اور سپورٹرز کی کارگزاری اور احتجاجی تحریک کہیں نظر نہیں آئی۔ جب وہ نااہل کیے گئے اور انتخابی دائرے سے باہر کردیے گئے اس وقت بھی کہیں کوئی ماتمی جلوس یا جلسہ کہیں دکھائی نہیں دیا۔ جب انہیں بڑی بڑی سزائیں سنائی گئیں حتی کہ بشریٰ بی بی کے ساتھ ان کی شادی ہی ختم کردی گئی تب بھی کسی تالاب میں کوئی کنکر چھوٹے چھوٹے دائرے بھی نہ بناسکا۔ انتخابی موسم میں اگر دوچار جگہ دس پندرہ ہزار لوگ بھی نکل آتے تب بھی پی ٹی آئی کے حق میں انتخابی ماحول بن جاتا۔ اب اگر کسی وہم وخیال میں کہیںکوئی امکان اس بات کا موجود تھا کہ مسلسل موخر احتجاج، الیکشن میں بذریعہ ووٹنگ موثر اور نتیجہ خیز بنایا جاسکے گا ان سزائوں سے وہ امکان بھی رد کرنے کی کوشش کی گئی۔ عمران خان کو ووٹ دینے کا اگر کوئی فائدہ تھا بھی تو ان سزائوں کے بعد ’’نکل گیا ہے وہ کوسوں دیار حرماں سے‘‘۔

عمران خان کے مقدمات اور سزائوں کو لوگوں نے کافی نارمل لیا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہوکہ ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد یہ مقدمات کہیں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر یا کھود کر برآمد نہیں کیے گئے بلکہ ان کے دور حکومت میں بھی توشہ خانہ کیس اور عدت میں نکاح خالی میدانوں میں بدنامی کے شہر آباد کرتے رہے تھے۔ وہ بارہا ٹی وی پرقوم سے اپنے خصوصی خطابوں اور پریس کانفرنسوں میں ان پر وضاحت دیتے رہے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں ان کے میڈیا ورکرز بھی بدنامی کے ان تناور درختوں کو شعلوں کی نذر کرتے رہے لیکن یہ معاملات ختم ہونا تو درکنار ذہنوں سے محو بھی نہ ہو سکے۔ سائفر کے معاملے کی بھی یہی صورتحال رہی۔ اسی وقت میڈیا میں اس مسئلے کی حساسیت اور نزاکت پر متعدد سوالات اٹھائے گئے تھے لیکن اس وقت عمران خان فغان درویش توکیا قہر مانوں کی بات کو بھی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔

عمران خان اور ان کے وکلا کی کوشش تھی کہ جس حدتک ممکن ہوسکے ان کیسز کو طول دیا جائے اس کے لیے جو کچھ ان کے بس میں تھا وہ کررہے تھے۔ لکیر کے دوسری طرف کوشش تھی کہ ان مقدمات کا فیصلہ جلداز جلد آجائے تاکہ الیکشن کے دوران اس کا فائدہ اٹھایا جائے۔ متعلقہ عدالتوں نے جس طرح یکے بعد دیگرے طوفانی انداز میں تین دن کے اندر سخت سزائوں کے فیصلے سنائے اس سے یہ تاثر ملا کہ عدالتی عمل کو کہیں سے مانیٹر کرکے اس بات کو یقینی بنایا جارہا ہے کہ مقدمات کے فیصلے الیکشن سے پہلے آنے چاہییں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان مقدمات میں عمران خان کو جو فائدہ ان کے وکلا نہیں پہنچا سکے وہ جلد بازی نے پہنچا دیا۔

جس تیز رفتاری سے ان مقدمات کو فیصل کیا گیا ہے ایسا نہیں تھا کہ ان مقدمات میں جان نہیں تھی۔ جان تھی اور بے حد جان تھی۔ اگر انصاف کے تقاضوں کو مکمل طور پر ملحوظ رکھا جاتا اور جلد بازی نہ کی جاتی تو پھر شاید فیصلوں پر وہ سوالات نہ اٹھائے جاتے جو اب اٹھائے جارہے ہیں۔ جلدی نمٹانے کی کوشش میں فیصلوں میں ایسی کمی اور کوتاہیاں رہ گئی ہیں جن کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

ایک بات جو بڑے تواتر سے کہی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ عمران خان اور دیگر شریک ملزموں کو اپنے دفاع کا پورا موقع نہیں ملا۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو مقدمے کے اختتامی مراحل میں اپنی مرضی کے وکلا کی معاونت لینے کی اجازت نہیں دی گئی اور عدالت کی طرف سے سر کاری وکیل مقرر کردیے گئے جنہوں نے ملزمان کی طرف سے ان مقدمات کی پیروی کی۔ دوسرا اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ سائفر اور توشہ خانہ کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کا 342 کا بیان بھی نہیں لیا گیا۔ فوجداری مقدمات میں یہ بیان ملزم کا بنیادی حق سمجھا جاتا ہے جس میں اسے براہ راست صفائی کا موقع ملتا ہے اور ملزم جج کو براہ راست بتاتا ہے کہ وہ کیسے موجودہ قائم کیے گئے مقدمے میں بے گناہ ہے اور اس پر مقدمہ قائم کرنے کے پیچھے کیا محرکات ہوسکتے ہیں۔ ملزم کو آزادی ہوتی ہے کہ وہ بغیر حلف لیے جو بھی کہنا چاہے عدالت کے سامنے کہہ دے۔ جب ملزم کے وکلا استغاثہ کی طرف سے پیش کیے گئے تمام ثبوتوں اور گواہان پر جرح مکمل کر لیتے ہیں تو پھر عدالت ملزم کا یہ بیان ریکارڈ کرتی ہے۔ ویسے یہ بیان کسی وقت بھی لیا جاسکتا ہے۔ قانون میں یہ کہا جاتا ہے کہ کسی ملزم کو سنے بغیر سزا نہیں سنائی جا سکتی مگر اب دو دنوں کے اندر دو ایسے مقدمات سامنے آئے ہیں، جہاں جج نے ملزمان کا بیان سنے بغیر انہیں سزائیں سنا دیں۔

احتساب کے عمل کی زد میں حال اور ماضی کے جو سیاست دان بھی آتے ہیں ناقص فیصلوں کی وجہ سے ایسا لگنے لگتا ہے کہ ریاست ان سے اپنی دشمنی اور بدلہ لینے کی خواہش میں تمام حدود پھلانگ رہی ہے۔ عدالتوں میں انصاف کا ایک تماشا لگا دیا جاتا ہے جس میں حقائق، ضابطے اور قوانین سب لائن کے اس طرف والوں کی مرضی میں مڑتے چلے جاتے ہیں، وہ جن کی ناراضی منتخب رہنمائوں سے حکمرانی اور آزادی کا حق سب کچھ سلب کرلیتی ہے۔ اور پھر ان ہی رہنمائوں کو دوبارہ استعمال کرنے کے لیے مقدمات میں ایسے قانونی سقم چھوڑ دیے جاتے ہیں کہ جب چاہیں فیصلوں کو ریورس کرکے مقدمات اس آسانی اور تواتر سے ختم کردیے جاتے ہیں جس آسانی اور تواتر سے قائم کیے گئے اور سزائیں دی گئی تھیں۔ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ کیس میں احتساب عدالت کے اسی جج کے ذریعے سزا سنائی گئی ہے جس نے گزشتہ انتخابات سے چند روز پہلے ایون فیلڈ کیس میں نواز شریف کو سزا سنائی تھی۔ جن کی شہرت یہ ہے کہ ریاست کو جس سیاست دان کو سزا دلوانی ہوتی ہے اس جج کے سامنے کھڑا کردیا جاتا ہے۔ نواز شریف کی اُس سزا کو تین ماہ پہلے گزشتہ سال نومبر میں قانونی کمزوریوں اور سقم کی بنیاد پر منسوخ کردیا گیا تھا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ جب عمران خان کی دوبارہ ضرورت ہوگی تو مقدمے میں موجود کمزوریوں اور سقم کو بنیاد بنا کر عمران خان او ر بشریٰ بی بی کی سزا بھی ختم کروادی جائے گی۔ یہ فیصلے بھی زیادہ عرصے برقرار نہیں رہیں گے۔

انگریز کے بنائے گئے قوانین کے تحت فیصلے کرنے والی یہ عدالتیں بھی فراڈ ہیں اور ان کی سزائیں، اپیلیں اور سزائوں کا ریورس ہونا بھی سب جعلی اور فراڈ ہے۔ اسلامی شریعت ہی انصاف کا ایسا نظام تشکیل دیتی ہے جس میں موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کا حقیقی احتساب ممکن ہو سکے۔ نواز شریف، زرداری اور دیگر سابقہ حکمرانوں پر کمزور مقدمات اور سزائیں اور اس کے بعد ان سزائوں کا خاتمہ اسی طرح حالیہ مقدمات اور سزائیں بھی کمزور اور قانونی سقم سے بھرپور فیصلوں کی وجہ سے مقدمات درست ہونے کے باوجود سب طاقت کے کھیل کے ڈھکوسلے بن کر رہ جاتی ہیں جن کا حقیقی احتساب سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔