امریکی ورلڈ آڈر اور اسلام کا نفاذ (۱)

510

آخر ہماری اعلیٰ فوجی قیادت، اور حکمران اشرافیہ جس میں اعلی عدلیہ، بیورکریسی اور سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی شامل ہیں، کیوں اسلام کے مکمل نفاذ کی حمائت نہیں کرتے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری اشرافیہ سمجھتی ہے کہ آج امریکی ورلڈ آرڈر کے ساتھ چلے بغیر نہ ہم ترقی کرسکتے ہیں اور نہ ہی ہماری بقا یقینی ہو سکتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کون سی ترقی اور کون سی بقا؟ پچھلے 76 سال سے پاکستان کی حکمران اشرافیہ امریکی ورلڈ آرڈر کے ساتھ ہی چل رہی ہے، لیکن اس کے باوجود ہماری معاشی حالت کیا ہے۔ ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہم ایک ایک ڈالر کے لیے دنیا بھر میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ پچھلے 76 سال سے حکمران اشرافیہ امریکی ورلڈ آرڈر کے ساتھ چل رہی ہے، لیکن اس کے باوجود ہم نے آدھا پاکستان گنوادیا۔ پچھلے 76 سال سے حکمران اشرافیہ امریکی ورلڈ آرڈر کے ساتھ چل رہی ہے کشمیر کو ہندو ریاست کے تسلط سے آزاد نہیں کراسکے۔ تو ایک بات تو طے ہے کہ یہ بات سو فی صد غلط ہے کہ امریکی ورلڈ ارڈر کے ساتھ چلنے میں ہماری معاشی و سیاسی بقا یقینی ہے۔ امریکی آرڈر پر چلنے، اور ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہم بے شمار مسائل کا شکار ہیں۔ ہمارا دنیا میں کوئی مقام نہیں ہے۔ اگر معیشت کی بات کریں تو امریکی عالمی آرڈر آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے ذریعے اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پاکستان اپنی ضروریات کا بیش تر حصہ درآمد کرے۔ جس کے نتیجے میں پاکستان کو ہمیشہ ڈالروں کی کمی کا سامنا رہتا ہے اور وہ آئی ایم ایف اور دیگر مغربی اداروں اور ممالک سے ڈالروں میں قرض کے حصول کے لیے امریکی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ امریکی خوشنودی کے بغیر نہ تو آئی ایم ایف اور نہ ہی دیگر مغربی ممالک اور ادارے ڈالروں میں قرض دیں گے۔ قرضوں اور سود کی وصولی کے لیے آئی ایم ایف پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے اور ٹیکسوں میں اضافے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مقامی صنعتوں اور زراعت کی پیداواری لاگت میں اس قدر اضافہ ہوجاتا ہے کہ درآمدی اشیاء سستی لگنے لگتی ہیں اور مقامی پیدا شدہ اشیاء مہنگی اور غیر معیاری۔ نتیجتاً مقامی پیداوار چند شعبوں تک محدود رہ جاتی ہے اور زیادہ تر اشیاء درآمد ہونے لگتی ہیں۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ درآمدات ہمیشہ برآمدات سے بہت زیادہ رہتی ہے جس کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے جانے والے ڈالرز بھی پورا نہیں کرپاتے اور بیرونی ادائیگیوں کے لیے پاکستان ایک بار پھر آئی ایم ایف کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ اور اس طرح یہ شیطانی چکر چلتا رہتا ہے۔

آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے احکامات پر مبنی پالیسیوں نے پاکستان کی معیشت کی ساخت ایسی بنا دی ہے کہ یہ درآمدات کے سہارے چلنے والی اور غیر ملکی سرمائے پر انحصار کرنے والی معیشت بن گئی ہے۔ یہ درآمدات 2000ء میں 10 ارب ڈالر تھیں جو 2022ء میں 82 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں تھیں۔ اس معاشی کمزوری کو استعمال کرتے ہوئے امریکا ایف اے ٹی ایف کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے، اور پاکستان کو مجبور کردیتا ہے کہ کشمیر کی آزادی کی تحریک سے عملاً علٰیحدگی اختیار کرلے اور کشمیری مجاہدین تنظیموں کا پاکستان کی سرزمین سے خاتمہ کردے۔ اسی معاشی کمزوری کو استعمال کرتے ہوئے امریکا پاکستان کو مجبور کرتا ہے کہ وہ افغانستان کے خلاف امریکی پالیسی کے مطابق طرز عمل اختیار کرے جس کے نتیجے میں دو مسلم علاقوں کے درمیان مستقل کشیدگی رہتی ہے جو خطے کے مسلمانوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ اسی معاشی کمزوری کو استعمال کر کے امریکا ہمیں ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو معمول لانے پر مجبور کرتا ہے، اور ہمیں کشمیر پر فوجی کارروائی کرنے سے روکتا ہے۔ اسی معاشی کمزوری کو استعمال کر کے امریکا ہمارے حکمرانوں کو فلسطین کے مسئلے پر دو ریاستی حل کی حمایت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

مہنگائی کی وجہ بھی یہی امریکی عالمی آرڈر ہے جس میں سرمایہ دارانہ نظام سونے اور چاندی کو چھوڑ کر کاغذی کرنسی چھاپنے کا اختیار دیتا ہے جس کے نتیجے میں حکومت اتنے نوٹ چھاپتی ہے کہ مہنگائی کا سونامی آجاتا ہے۔ موجودہ عالمی آرڈر اور اس کے سرمایہ دارانہ معاشی نظام کی پیروی کرنے سے نہ ہم اندرونی طور پر معاشی طاقت بن سکے اور نہ ہی ہم اپنے بیرونی مفادات کا تحفظ کر پائے۔ اسی طرح امریکی قیادت تلے بین الاقوامی آرڈر نے پاکستان کے سیاسی نظام کو مغربی ڈکٹیشن کا غلام بنا رکھا ہے۔ امریکا اور اس کے بین الاقوامی آرڈر نے پاکستان میں نظام ِ حکمرانی کے طور پر جمہوریت کے نفاذ کی مسلسل حمایت کی ہے۔

اگست 2005 میں پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے کے پی کے اسمبلی سے منظور شدہ حسبہ بل کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا کیونکہ عدالت عظمیٰ کی نظر میں محتسب نماز ترک کرنے والے شخص کی غفلت یا لاپروائی کی جانچ کرنے کا مجاز نہیں ہے، اور محتسب کی طرف سے اس طرح کی مداخلت کی اجازت دینا کسی فرد کے آزادی مذہب کے حق سے انکار کے برابرہوگا۔ یعنی پاکستان کا آئین اور قانون پاکستان کے شہری کو آزادی مذہب کی بنیاد پر یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ مسلمان ہونے کے باوجود اگر نماز نہ پڑھے تو اس سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوسکتی۔ تو یہ بات تو طے ہے کہ موجودہ صورتحال میں کوئی جماعت دو تہائی اکثریت لے کر بھی آجائے تو اسلام زندگی کے تمام شعبوں میں مکمل طور پر نافذ نہیں کرسکے گی۔

موجودہ نظام کے ذریعے ہی امریکا اور مغرب پاکستان کی پارلیمنٹ سے ایسے قوانین منظور کرانے میں کامیاب ہوئے جنہوں نے پاکستان کے مسلمانوں پر مغربی طرزِ زندگی کو مسلط کیا، جیسا کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ، اسٹیٹ بینک خود مختاری بل، رِبا (سود) پر مبنی مالیاتی نظام کی اجازت، پاکستان کی عدالتوں میں سیکولر برطانوی قانون کا نفاذ اور انسدادِ دہشت گردی کی قانون سازی وغیرہ۔

حکمران یہ سب کچھ اس لیے کرتے ہیں کیونکہ امریکی عالمی آرڈر ان اقدامات کا تقاضا کرتا ہے اور اس کی مخالفت کر کے نہ آئی ایم ایف سے قرض حاصل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی امریکا اور مغربی ممالک تک پاکستان کی برآمدات پہنچ سکتی ہیں۔ الیکشن کے موقع پر امریکا ایک سے زائد بار یہ کہہ چکا ہے کہ وہ پاکستان میں کسی مخصوص شخص یا جماعت کی حمایت نہیں کرتا بلکہ پاکستان کے مروجہ نظام کی حمایت کرتا ہے۔ امریکا ایسا اس لیے کہتا ہے کیونکہ اس نظام کی موجودگی کی وجہ سے وہ مسلم ممالک میں مغربی تہذیب و اقتدار کو قائم کرتا ہے۔ لیکن ان سب حقائق کے باوجود پاکستان کے حکمران امریکا اور اس کے بین الاقوامی آرڈر کی اجازت کے برخلاف پاکستان پر حکومت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ پاکستان کے جرنیل اور سیاست دان امریکا سے خوف کھاتے ہیں۔ وہ امریکا کے دوروں اور امریکا کی تائید اور اس پر عمل کے متلاشی رہتے ہیں۔ امریکا کی تائید اور سہاروں کے بغیر وہ اقتدار کے ایوانوں تک رسائی اور وہاں تادیر قیام کو ممکن نہیں سمجھتے۔
(جاری ہے)