جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں؟

552

میں نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ پاکستان کے جو سات سب سے بڑے مسائل ہیں: ۱۔ مغرب کی غلامی اور غلامانہ ذہنیت سے نجات؛ ۲۔ عدل کا قیام؛ ۳۔ تعلیمی انقلاب، نظام تعلیم میں تبدیلی؛ ۴۔ سود کا خاتمہ ۵۔ اردو کو اس کا مقام دینا؛ ۶۔ انتخابی نظام کی خرابی کو دور کرنا؛ اور ۷۔ دستور پاکستان کی اصلاح۔ اس کا حل صرف اور صرف جماعت اسلامی کے پاس ہے۔ جماعت اسلامی، پاکستان کی سب سے پرانی سیاسی جماعت ہے۔ اس کا قیام 1941 میں لاہور میں عمل میں آیا۔ لیگ اور ق لیگ وغیرہ قائد اعظم کی مسلم لیگ نہیں ہے۔ یہ حرف تہجی والی مسلم لیگ وہ لیگ ہے جس سے مسلم لِیک (leak) ہوتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم محمد علی جناح اور قائد ملت لیاقت علی خاں کی شہادت کے ساتھ ختم ہو چکی تھی۔ آج پاکستان کے لبرل، سیکولر، اور منافقین خواہ کچھ بھی کہتے رہیں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کا تصورِ پاکستان، دستور قرآن تھا۔ اور وہی دستور جماعت اسلامی پاکستان کا دستورہے۔

قیام پاکستان سے قبل انڈین مسلم لیگ کے وکلا کی جماعت بارہا قائد اعظم کے پاس آئی اور ان سے پاکستان کا دستور پہلے سے تیار کر لینے کی بات کی۔ لیکن ہر بار قائد نے یہی کہا کہ ہمیں دستور بنانے کی ضرورت نہیں ہے، ہمارا دستور چودہ سو سال قبل آچکا ہے اور وہ قرآن کی شکل میں موجود ہے اور وہ قیامت تک موجود رہے گا۔ آپ ہی نے سید ابو اعلیٰ مودودیؒ کو ریڈیو پاکستان پر اسلامی دستور کے خد و خال کی وضاحت کے لیے کہا تھا۔ اور انہیں کے ایما پرمولانا مودودیؒ نے ریڈیو پاکستان پر اس کی تفصیلات کو کھول کر بیان کیا تھا۔ جماعت اسلامی ایک منظم جماعت ہے۔ جماعت اسلامی کے پاس اسلامی پاکستان کے تمام نظریاتی وسائل، مواد، اوزار اور علمی سرمایہ اور سماجی خدمات کی شکل میں تجربہ موجود ہے۔ اس کے پاس اقامت دین اور نفاذ شریعت کا خاکہ بھی ہے اور ارادہ بھی۔ جماعت اسلامی کوئی موروثی جماعت نہیں ہے۔ اس کی ہر سطح کی قیادت منتخب ہو کر آتی ہے۔ جماعت اسلامی میں امیر کے انتخاب کا معیار صرف دو ہے؛ صالحیت اور صلاحیت۔

جماعت اسلامی 1970 کے الیکشن میں بھی ایک متبادل کے طور پر موجود تھی۔ مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ اور مغربی پاکستان کی پیپلز پارٹی کا مقصد تفرقہ اور تقسیم تھا۔ پاکستان کی مقتدرہ کا مقصد بھی یہی تھا۔ اس انتخاب میں طے ہو گیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی مشرقی پاکستان میں ایک سیٹ پر بھی نہیں لڑے گی۔ مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ بھی مغربی پاکستان میں علامتی طور پر صرف دو یا تین سیٹوں پر الیکشن لڑی۔ صاف ظاہر ہو چکا تھا کہ مغرب سے پیپلز پارٹی اور مشرق سے عوامی لیگ جیت گئی تو ملک دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گا۔ جماعت اسلامی پاکستان جو پاکستان کو جوڑے رکھنے کی سیاسی طاقت تھی، ملک کے دونوں حصوں سے بھر پور طریقے سے الیکشن لڑ رہی تھی۔ دونوں طرف کے عوام کے پاس ایک موقع تھا جماعت اسلامی کو ووٹ دے کر اور انہیں اقتدار میں لا کر پاکستان کو متحد رکھنے کا۔ لیکن عوام نے انہیں ووٹ نہیں دیا، یا انہیں دینے نہیں دیا گیا۔ عوام نے موقع گنوا دیا، اور پاکستان دو لخت ہو گیا۔

آج 2024 میں کم و بیش وہی صورت حال ہے۔ شمال مغرب میں بیسیوں سال سے آگ لگی ہوئی ہے، بلوچستان کو کچل کر ادھ موا کیا جا چکا ہے۔ انہیں علاقوں کے گم شدہ افراد کی اکثریت ہے، جن کے خاندان کے ارکان؛ مائیں، بیٹیاں، بیٹے، بیویاں، بھائی، والد، ماموں، چچا اور دادا، نانا اسلام آباد کے دھرنے میں بیٹھے ہیں۔ ان کے رشتہ داروں کو کس نے اغوا کیا، کیوں کیا، کہاں لے گئے، زندہ ہیں یا مر گئے، انہیں نہیں پتا۔ لیکن جنہوں نے اٹھوایا، اور ان مظلوم مغویوں سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے نام نہاد دہشت گردوں (اسلام پسندوں) کے لیے قائم کردہ گوانتا نامو بے اور دنیا بھر کے عقوبت خانے بھی آباد ہوئے، اور ان سے نہ جانے کہاں کہاں اور کیا کیا خدمات لی گئیں، کتنے زندہ ہیں اور کتنے مردہ، ان کے اغواکنندگان کو تو خوب اچھی طرح معلوم ہوگا۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ ایجنسیوں کے ذریعہ کسی کے قتل یا بدامنی پھیلانے کے لیے انہیں لوگوں کو خود کش حملوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بم باندھ کر انہیں بھیڑ میں دوڑا دیا جاتا ہے۔ یہ خفیہ ایجنسیوں کے ’’انسانی اثاثہ‘‘ ہیں۔ واللہ اعلم باِلصواب۔

اغوا کنندگان کا کچھ تو پتا ہے، لیکن مغویوں کا کچھ پتا نہیں۔ مغویوں کی سرکاری تجارت، اور انہیں امریکا کے ہاتھوں فروخت کرنے کا انکشاف مجرم نمبر ایک جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب ’’ان دی لائن آف فائر‘‘ میں کر دیا ہے۔ عافیہ صدیقی کو بچانے اور انہیں پاکستان لانے کی کوئی کوشش کسی حکومت نے اسی لیے نہیں کی، اور عمران خان بھی اپنے وعدے سے اس لیے پھر گئے کہ پاکستان کا مقتدرہ نہیں چاہتا تھا۔ مقصد صاف تھا کہ پاکستان آکر جب عافیہ صدیقی بول اٹھے گی تو بہت سی ٹانگیں اور ان کے نیچے کی زمینیں کانپیں گی اور اغوا کنندگان کا اس دنیا میں احتساب کا وقت قریب آلگے گا۔ اگر مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونا ہے اور مظلوم بننے سے بچنا ہے، مہنگائی، بیروزگاری، جہالت، بدامنی، افراتفری، اغوا، چوری، ڈاکہ، قتل و غارت گری، قلت آب و معاش، بجلی اور گیس کے ہوش ربا بل، لوڈ شیڈنگ، پاور آوٹیج، بھتا خوری، جبری چندہ، مافیا کی غنڈہ گردی، کلٹ (cult) کی بددماغی، ذہن کو مائوف کر دینے والے لٹریچر اور علوم، جادو ٹونہ، فحاشی کا سیلاب، صنفی ارتداد اور جنسی انحراف (LGBTQ+)، آئی ایم ایف کے بیہودہ سماجی اور معاشی شرائط، ناقابل برداشت ٹیکس کا بوجھ، حکومتی اہل کاروں کی بدمعاشی، قومی ذلت، فری فال گرتی عالمی ساکھ، تاجروں کی ذخیرہ اندوزی، ناکارہ، کام چور، اور رشوت خور حکومت کے اہل کار، پولیس کا ظلم، ٹریفک کا عذاب، آلودگی سے گھٹتی سانسیں، صحت برباد کرنے والے اجناس کی پیداوار، غذا میں ملاوٹ، دودھ میں ایکسپائرڈ پاوڈر، مصالحہ جات میں اینٹ کا بْرادہ، پھلوں اور سبزیوں کو تازہ اور سر سبز نظر آنے لیکن آنتوں اور جسموں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا نے والی کیمیاوی اشیاء کا استعمال، مشکوک گوشت، مرغ کو جلد بڑا کرنے کے لیے زہریلی غذا، اور ڈاکو ڈاکٹرز سے اپنے جسم، دل، جگر، گردہ، دماغ اور خون کو بچانا ہے تو جماعت اسلامی کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کے سوا پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کے پاس ملک کو جوڑے رکھنے، اسے صحیح راستے پر چلانے اور منزل مقصود تک پہنچانے کا کوئی پروگرام ہے، نہ دماغ ہے، نہ صلاحیت ہے، نہ ارادہ ہے، اور نہ خواہش۔ بات بہت سادہ ہے لیکن ابلاغیہ، تجارتی اخبار، پروپگنڈہ، جھوٹ، افترا، دھوکہ، فریب، گمراہ کن وعظ اور تقریروں کے آلودہ ماحول میں یہ سادہ سی بات بھی اب اجنبی بن چکی ہے۔

دھوپ کہیں جب دھوپ نہیں، رات کہیں جب رات نہیں
دیوانوں کی بات سمجھنا سب کے بس کی بات نہیں

(نوٹ: جماعت اسلامی کے امیدواران انتخاب اپنے اپنے حلقہ میں اس طرح کے کالم اور مضامین پرنٹ کرکے اپنے ہاتھوں سے تقسیم کریں، اور گھر گھر تقسیم کروائیں تو بات پہنچانے کا اور چرچہ میں لانے کا یہ بھی ایک ذریعہ ہوگا، اور امید ہے کہ تجارتی ابلاغیہ اور سوشل میڈیا سے زیادہ موثر ہوگا)