آٹھ فروری کا انتخاب اور سات بڑے مسائل، کون کرے گا حل؟

480

(آخری حصہ)
۵۔ پاکستان کا پانچواں سب سے بڑا مسئلہ زبان کا مسئلہ ہے۔ بنگال کی انگریزی حکومت نے جب نوکری کے لیے انگریزی زبان کو لازمی قرار دیا تھا، اور انگریزی کے حروف پڑھ لینے والے اور انگریزی میں ریلوے اسٹیشن کا نام پڑھ لینے والوں کو اسٹیشن ماسٹر کی نوکری ملنے لگی تھی تو راتوں رات، انگریزی حروف تہجی کا رٹا لگا کر چٹرجی، بنر جی، مکھرجی وغیرہ اینگلو انڈین بن گئے اور نئی سرکار کے ملازم ہو گئے۔ مسلمانوں کے فارسی، اردو اور عربی زبان کے بڑے بڑے عالم، فاضل، دانشمند، اور ہنر مند بیروزگار ہوگئے، اور فاقہ مستی پر مجبور ہو گئے۔ غیر زبان کی غلامی سے ایک قوم کی تہذیب، ثقافت، ادب اور روایات کمھلانے لگیں۔ انگریزی حکومت مسلمانوں کی ہری بھری سر سبز و شاداب وادی سے زبان کا حسن، پھولوں کی خوشبو، کوئل کی کوکو، پپیہے کی پکار اور نغموں کی جھنکار سب کچھ چھین کرلے گئی۔
پاکستان کے انگریزی غلام حکمرانوں نے بھی انگریزی کو بذریعہ اقتدار و طاقت نافذ کیا اور اردو کو دبانے اور کچلنے کی برابر کوششیں کرتی رہی۔ دستور پاکستان کا تقاضا اور قانون کے مطابق پاکستان کی سرکاری اور دفتری زبان بہت پہلے اردو ہو جانی چاہیے تھی، لیکن پاکستان کے انگریزی وفادار حکمرانوں نے مسلسل دستور اور قانون کی خلاف ورزی کی۔ عدالت عظمیٰ صرف مقتدرہ اور اشرافیہ کے مفاد کے لیے عدالت سجاتی ہے، قوم اور اس کی زبان کا مفاد اسے پیارا نہیں ہے۔ اردو زبان جس میں ہماری ملت کے دماغوں میں خیال جنم لیتے تھے، اور جس میں خیال کو اظہار، اظہار کا وسیلہ، وسیلہ کو اسلوب، اسلوب کو لہجہ اور لہجے کو تاثیر اور لذت ملتی تھی۔ اور نسلوں کی نشست و برخواست، حفظ مراتب، رفتار و گفتار، جس کی تعمیر اور تشکیل میں سلف کا خونِ جگر صرف ہوا تھا، وہ زبان اس قوم سے چھین لی گئی۔ اردو زبان کا احیاء ایک تہذیب کا احیاء ہے، اور یہ اسلامی تہذیب کا احیاء ہے۔ کون کرے گا اردو زبان کا احیاء؟
۶۔ پاکستان کا چھٹا سب سے بڑا مسئلہ انتخابی نظام کی خرابی کا مسئلہ ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ اور ایک اسلامی ریاست میں امام اقتدار (امیر، خلیفہ، امام، صدر، وزیر اعظم) کا چنائو کیسے ہوگا؟ یہ بہت اہم موضوع ہے۔ موجودہ نظام انتخاب غیر اسلامی، جاہلانہ، ظالمانہ، غیر منصفانہ، غیر شفاف، دھندلا، قابل خرید، بر بنیاد پروپیگنڈا، دولت سے اثر انداز اور طاقتور کی رکھیل ہے۔ یہ نظام منی (Money)، میڈیا (Media)، مسل (Muscle)، اور ملٹری (Military) کی مینجمنٹ (Management) سے چلتا ہے، یعنی کہ 5Ms سے چلتا ہے۔ اس نظام سے خیر برآمد ہونا مشکل ہے، جب کہ اس سے شر کی پیداوار کی بہتات ہے۔ اسلامی پاکستان کے علمائے کرام کو سر جوڑ کر جدید دور میں امیر کے انتخاب کے طریقہ اور منہج پر اجتہاد کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں قرآن و سنت، خلفائے راشدین خصوصاً عمر فاروقؓ اور سیدنا علیؓ کے سیاسی اجتہادات سے روشنی ملے گی۔ اسلام میں قیادت کے لیے دو خصوصیات کا پایا جانا لازمی ہے۔ پہلی خصوصیت صالحیت اور دوسری خصوصیت صلاحیت ہے یعنی کہ للہیت اور اہلیت، تقویٰ اور انتظام، علم و عمل، کردار اور رہنمائی کی صفات کی بہترین آویزش اور اس کا بہترین سنگم۔ تو انتخابی نظام میں تبدیلی کے لیے کون کرے گا حوصلہ اور ہمت؟
۷۔ پاکستان کا ساتواں سب سے بڑا مسئلہ دستور کی اصلاح ہے۔ قرارداد مقاصد پاکستان، آئین پاکستان کی تمہید، اب دستور کا حصہ ہے۔ جس کے مطابق اب پاکستان میں قرآن و سنت کی بالادستی قائم ہو چکی ہے۔ قرآن و سنت سے ہٹ کر پاکستان میں قانون سازی نہیں کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ دستور پاکستان کے وہ تمام باب، آرٹیکلز، ضابطے، شِقّات، ترمیمات، اور تشریحات، کی اصلاح کرنی ہوگی جو قرآن و سنت سے ہٹ کر بنائے گئے، لکھے گئے اور لکھوائے گئے ہیں۔ اسے دستور میں تبدیلی نہیں بلکہ دستور کی اصلاح کہیں گے۔ اب پاکستان میں برٹش نظام پر مبنی عدلیہ، برٹش انڈین پینل کوڈ، اور برطانوی اینڈین امپیریل پولیس کے قوانین کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ دستور کو مقاصد پاکستان سے مکمل ہم آہنگ اور تال میل بنانا آئینی تقاضا اور قومی فریضہ ہے۔ تو سوال پھر یہی ہے کہ کون کر سکے گا دستور کی یہ اصلاح؟
سات بڑے مسائل، سات بڑے اشوز سے نکلنے والے سات سوالات کو سامنے رکھ کر اب انتخابی دوڑ میں شامل تمام جماعتوں پر ایک نگاہ ڈالیں۔ ان کی تنظیم، ان کے ارکان، سیاسی جماعت کی تاریخ، ان کے دستور، انتخابی منشور، اور دیگر شعبہ حیات میں ان کی کارکردگی اور خدمات، ان کی قیادت، اور ان کے عہدہ داران اور ذمہ داران کی صالحیت اور صلاحیت پر نظر ڈالیں تو ایک جماعت کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں ملے گا، اس جماعت کا نام ہے جماعت اسلامی پاکستان، جس کا انتخابی نشان ہے ترازو۔ یہ عدل کا ترازو ہے۔ آپ بھی عدل کریں، اپنے ووٹ کی امانت انہیں دے کر امین ہونے کا ثبوت دیں۔ دوسری کسی جماعت کو ووٹ دینا امانت میں خیانت ہوگا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ جماعت تو جیتنے والی نہیں ہے تو یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ جس کو ووٹ دیں اس کی حکومت قائم ہو جائے۔ جیت و ہار سے اوپر اٹھنا ہوگا، امانت داری کا تقاضا یہی ہے کہ کم تر برائی کے بجائے حق کا ساتھ دیں۔ عدل کے نشان ’’ترازو‘‘ پر مہر لگائیں۔
دوسری طرف میں جماعت اسلامی پاکستان کے ذمے داران اور ان کے انتخابی میدان کے ارکان سے کہوں گا کہ وہ اپنی انتخابی مہم کو مندرجہ بالا سات نکات کے دائرہ میں رکھیں، اسی کو فوکس کریں، اسے نمایاں کریں، اسی سے اپنا سیاسی بیانیہ تیار کریں۔ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح ’’ترقی‘‘ اور ’’خوشحالی‘‘ کے بے معنی لیکن چمکدار اصطلاحات سے اپنے منشور کو نہ بھریں۔ آپ اسی بات کو نمایاں کریں جسے آپ کو کرنا ہے۔ آپ کی اہمیت اسی وقت تک ہے جب آپ کچھ نیا، اور سب سے نرالا کرنے جارہے ہوں۔ آپ کو نام نہاد ’’ترقی یافتہ‘‘ پاکستان کے بجائے ’’ہدایت یافتہ‘‘ پاکستان کی بات کرنی چاہیے۔ حقیقی ترقی اور خوشحالی ہدایت یافتہ پاکستان ہی سے وابستہ ہے۔
سب دیکھتے جدھر ہیں اُدھر کیا ہے کچھ نہیں
ہم دیکھتے جدھر ہیں اُدھر دیکھتا ہے کون