آٹھ فروری کا انتخاب اور سات بڑے مسائل

705

پاکستان میں الیکشن کے نام پر آٹھ فروری کو کیا ہونے جا رہا ہے، اور پاکستان کے ووٹرز کو کیا کرنا چاہیے، اس پر میرا تبصرہ ہے کہ:

نہ ساتھ دیں گی یہ دم توڑتی ہوئی شمعیں
نئے چراغ جلاؤ کہ روشنی کم ہے

نیا چراغ کہاں ہے، کدھر ہے اور کون ہے؟ اس سوال کے جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں پاکستان کے بڑے مسائل پیش کرکے چند سوالات اٹھانے ہوں گے:

۱۔ پاکستان کا پہلا سب سے بڑا مسئلہ غلامی ہے۔ عالمی مقتدرہ (Establishment) نے مقامی مقتدرہ سے مل کر ریاست کو غلامی کی زنجیر سے جکڑا ہوا ہے۔ مغربیت؛ مغربی نظام، مغربی تہذیب، مغربی تعلیم، مغربی ثقافت، مغربی زبان، انگریزی، بیوروکریسی، افسر شاہی، لال فیتہ، گریڈ سسٹم، بڑا بابو چھوٹا بابو، بڑا صاحب چھوٹا صاحب، کلرک، چپراسی، مغربی معاشی نظام، سرمایہ دارانہ نظام، امریکا، یو ایس اے فارن آفس، سیکرٹری خارجہ، ڈیفنس سیکرٹری، پینٹا گون، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، عالمی ایجنسیاں، اشتہاری ایجنسیاں، امریکی تھنک ٹینکس، قرضے، وہائٹ کالر جاب، بلیو کالر نوکری، بیروزگاری، مفلسی، طاغوتی عدلیہ، کالا کوٹ، جھوٹ سے پْرکالی زبان، ’’مائی لارڈ‘‘ بنے جج صاحبان، بلیک گائون کے پیچھے بلیک ہارٹ، اونچی تنخواہیں، اعلیٰ آسائشیں، ذاتی اور نفسانی خواہشات پر مبنی فیصلے، جھوٹ، طاقت اور دولت سے جھکتے ہوئے عدل کے ترازو، مغربی طرز کا ابلاغیہ، جھوٹ کا پلندہ اخبار، ٹی وی کی فحاشی، خاندان اور خاندانی نظام توڑنے والے ڈرامے، جھوٹ سے تراشی خبریں، فیک نیوز، ڈیسک اسٹوریز، حیوانی جذبات بھڑکانے والے اشتہارات، اور غلامی کو برقرار رکھنے کے ہزاروں طور طریقے، اوزار، اقدام، سرمایہ کاری، مقامی ادارے، این جی اوز، فوج کا عتاب، پولیس کے ڈنڈے، آنسو گیس اور پتھر۔

طویل غلامی نے پاکستانی جسم کے پوست، پوست کے نیچے گوشت، گوشت کے اندر کی رگیں، رگوں کے درمیان ہڈیاں، اور ہڈیوں کے اندر کے مغز کو بری طرح متاثر کیا ہے، اسی مغز سے بنا خون آج کے پاکستان کے دل کو سیراب کر رہا ہے۔ تو اس غلامی سے نجات کون دلا سکتا ہے؟ راستہ کیا ہے؟

۲۔ پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا مسئلہ عدل کا فقدان ہے۔ عدل، انصاف کے صرف اس شعبہ میں نہیں جس کا تعلق تعزیرات سے ہے۔ بلکہ اس کا تعلق خاندانی عدل، عائلی عدل، وراثتی عدل، سماجی عدل، سیاسی عدل، معاشی عدل، تعلیمی عدل، انتظامی عدل، قومی عدل، انسانی عدل، عالمی عدل، ماحولیاتی عدل، اور جانوروں کے ساتھ عدل سے بھی ہے۔ جانوروں کا بھوکا رہ جانا، یا اس پر تشدد کرنا ظلم ہے یعنی یہ عدل کے برعکس ہے۔ مختصر یہ کہ اس مملکت، اس دنیا کو عدل کے اس نظام پر قائم کر دینا جس پر یہ پوری کائنات قائم ہے۔ یعنی دنیا کے نظام کو کائنات کے نظام سے ہم آہنگ بنا دینا۔ عدل کا نظام کوئی انسان نہیں بنا سکتا ہے کیونکہ انسان زمان و مکان میں مقید ہے اور مختلف قسم کے تعصبات میں جکڑا ہو ا ہے۔ انسان کا بنایا ہوا عدل کا نظام انسان کے درمیان عدل قائم نہیں کر سکتا۔ انسانوں اور ممالک میں عدل کا قیام صرف انسانوں کے خالق کے دیے ہوئے نظام ہی سے ممکن ہے۔ اللہ نے اپنے آخری نبیؐ کے ذریعہ جو کتاب (القرآن) اور سنت (حدیث) بھیجی ہے اس سے نکلی ہوئی شریعت ہی سے عدل قائم ہو سکتا ہے۔ شریعت کا سب سے بڑا مقصد عدل کا قیام ہی ہے۔ شریعت کے بغیر عدل قائم نہیں ہو سکتا ہے۔ مشہور مفکر اسلام اور فقیہ، محدث، اور سیرت نگار علامہ ابن قیمؒ نے لکھا ہے کہ: ’’شریعت کے احکام تمام تر عدل ہیں، شریعت سراپا عدل ہے۔ جہاں شریعت ہے وہاں عدل ہے۔ جہاں عدل ہے وہاں شریعت ہونی چاہیے۔ اور جہاں عدل نہیں ہے وہاں شریعت نہیں ہو سکتی‘‘۔ تو عدل کے قیام کے لیے پاکستان کا کون سا سیاسی گروہ ہے جو شریعت نافذ کر سکتا ہے؟

۳۔ پاکستان کا تیسرا سب سے بڑا مسئلہ تعلیم اور تعلیمی نظام کا فقدان ہے۔ تعلیم کی معیار اور مقدار دونوں لحاظ سے تباہ کن صورت حال ہے۔ تعلیم کا مفہوم، مقصد تعلیم، طریقہ تعلیم کو متعین کیے بغیر تعلیم دینا نفع بخش نہیں الٹا نقصان دہ ثابت ہوا ہے، نتیجہ برعکس نکلا ہے۔ پاکستان کے تمام ننگ دین، ننگ ملت، ننگ وطن، غدار، خائن، جھوٹے، دغا باز، فراڈیے، گھپلے باز اور فتنہ پرداز تعلیم یافتہ لوگ ہی ہیں۔

تعلیم کی تعریف میں ایک امریکی ماہر تعلیم، تاریخ نویس، مصنف اور فلسفی وِلدورانت (Will Durant d. 1981) لکھتا ہے کہ ’’تعلیم تہذیب کی منتقلی کا نام ہے‘‘ یعنی دوسرے لفظوں میں ’’جب ایک نسل اپنی نئی نسل کو اپنا ایمان، اپنا عقیدہ، اپنی الہامی تعلیمات، حکمت و دانائی کی باتیں، ادب و آداب، فن و ہنر، طور طریقہ، تجربات، اپنی روایات، اپنی ثقافت، اپنی زبان، اپنا انداز، اپنی تاریخ اور اپنے ہیروز کے کارناموں اور کہانیوں کو منتقل کرتی ہے، تو اس عمل کو تعلیم کہتے ہیں۔ ’’سوال ہے کیا پاکستان کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں؟‘‘ اللہ نے قرآن کے ذریعہ ہمیں ایک دعا سکھائی کہ ’’اے ہمارے ربّ! ہمیں دنیا میں حسنات (بھلائی) دے اور آخرت میں بھی حسنات، اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا‘‘۔ تو ہمارے تعلیمی نظام کا مقصد بھی یہی ہونا چاہیے کہ ہمارے نوجوان دنیا اور آخرت دونوں کے حسنات حاصل کریں، اور ان کی ایسی تعلیم و تربیت ہو کہ وہ دوزخ کی آگ سے بچ جائیں۔ تعلیم کا بنیادی مقصد اخلاق کی تعمیر ہے۔ اور اخلاق کا اعلیٰ ترین نمونہ، اسوہ حسنہ محمد رسول اللہؐ ہیں۔ پاکستان کے نظام تعلیم سے تعلیم کی دوئی یعنی دین و دنیا اور امیر و غریب کی تعلیمی تقسیم کو بھی دور کرنا ہوگا۔ تو سوال ہے کون کرے گا، اور کون کر سکتا ہے یہ کام؟

۴۔ پاکستان کا چوتھا سب سے بڑا مسئلہ سود ہے۔ سود کا خاتمہ اسلام کی طلب ہے، اللہ کا حکم ہے، شریعت کا مطالبہ ہے، دستورِ پاکستان کا تقاضا ہے، اور پاکستان کی عدلیہ کا فیصلہ ہے۔ سود کے خاتمہ کے بغیر سرمایہ داری، افراط زر، کساد بازاری، تجارت بندی، دوکان کی تالہ بندی، معاشی سست روی، زر پرستی، منا فع پرستی، ذخیرہ اندوزی، معاشی عدم مساوات، تقسیم ثروت کا بگڑا ہوا توازن، ارتکاز سرمایہ، معاشی معاندانہ جدوجہد، استیصال، نامساعد حالات، طبقاتی کشمکش، معیشت کی اونچ نیچ، نشیب و فراز، چڑھائو اْتار، پیچ و خم، بیروزگاری، مفلسی، بھوک، فاقہ اور اس کے نتیجہ میں معاشرہ میں آہیں، کراہیں، چیخیں اور تڑپن، اور خاندان میں صلہ ٔ رحمی، قرابت داری، غربا پروری، انسان دوستی کا خاتمہ۔ یہی ہیں سود کے سوغات۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ

ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات
……

تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے
تو کون کرے گا سود کے خاتمہ کا بڑا اور کڑا فیصلہ؟

(جاری ہے)