تابعداری

632

ملک کی آزادی اور خود مختاری عدلیہ کی خود مختاری سے مشہود ہوتی ہے اور جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے تو عدلیہ آزاد نہ ہو تو جمہوریت درآمد ہدایات کی تابع ہوتی ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ اس کی تابعداری ضرب المثل ہوتی ہے اس تناظر میں امیر جماعت ِ اسلامی محترم سراج الحق کا یہ کہنا قابل ِ توجہ ہے کہ عدالتیں آزاد ہوں تو ملک ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن رہتا ہے۔ امن کا راستہ پولی اسٹیشن سے گزرتا ہے الیکشن کے التوا سے متعلق سینیٹ میں پیش ہونے والی قراداد کی کوئی اہمیت نہیں۔ قرارداد پیش کرنے والوں نے ایوان کے وقار کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ محترم سراج الحق کے ارشاد کے مطابق پاکستان کے وقار کو بحال کرنے کے لیے امریکا اور مالیاتی اداروں کی اشرار کا راستہ بند کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں عوام کو اہمیت دی جاتی ہے پاکستانی عوام کو بھی اْن کا حق ملنا چاہیے۔

جماعت ِ اسلامی کی طرح دیگر جماعتوں میں بھی شفاف انٹرا پارٹی الیکشن ہونا چاہیے کیونکہ جمہوریت اس کے بغیر بچہ جمہورہ کے سوا کچھ نہیں، مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کا جینا دوبر کردیا ہے۔ جماعت اسلامی برسرِاقتدار آکر مہنگائی ختم کرے گی اور سودی نظام سے جان چْھڑا کر ملکی معیشت کو مستحکم کرے گی مگر یہ اْسی وقت ممکن ہے جب عوام کرپٹ اور بارہا آزمائے ہوئے حکمرانوں سے جان چھْڑانے کی جدو جہد نہیں کرتے کیونکہ یہ ہی طبقہ بر سرِ اقتدار آکر اپنی تجوریاں بھرتا ہے اور اپنے منظورِ نظر افراد اور خاندان کو نوازتا ہے یہ طبقہ برسوں سے برسرِ اقتدار ہے مگر اس کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے جب تک یہ طبقہ ایونِ اقتدار میں براجمان رہے گا عوام مفلس اور ملک غیر مستحکم رہے گا۔ عوام کی خوشحالی اور ملک کی ترقی کے لیے باری باری کے کھیل کو ختم کرنا ہوگا۔

قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ہی برسرِ اقتدار رہے ہیں اور غیر جمہوری حکومتیں بھی ان کی سازش کے تحت عوام اور ملک پر مسلط ہوتی رہی ہیں۔ محترم سراج الحق نے درست فرمایا کہ ملک کے استحکام اور امن و امان کا دارومدار کا راستہ پولینگ اسٹیشن سے ہو کر گزرتا ہے سو، عوام کی حکمرانی اور ملک کے وقار کا تقاضا ہے کہ الیکشن صاف و شفاف ہوں اوریہ اسی صورت میں ممکن ہے جب حکومت کا قیام جمہوریت کے مطابق ہو مگر پاکستان میں جمہوریت کا راگ تو الاپا جاسکتا ہے۔ جمہوریت کی پزیرائی ممکن نہیں کیونکہ الیکشن میں حصہ لینے والی جماعتوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کوئی بھی جماعت 50 فی صد ووٹ نہیں لے سکتی۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ آزاد اْمیدوار کامیاب ہوکر حکومت سازی میں ایسی ایسی رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں جو حکومت کو بلیک میل ہونے پر مجبور کر دیتی ہیں اس میں صاف و شفاف الیکشن کے انعقاد کی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ رکنِ اسمبلی بننے کے لیے حاصل شدہ ووٹوں کا تعین کیا جائے۔

یہ کیسی عجیب بات ہے کہ چند فی صد ووٹ لینے والی جماعتیں بھی ایوانِ اقتدار میں جلوہ افروز ہوجاتی ہیں اور حکومت ان کے سامنے دست ِ بدستہ کھڑی ہوکر پوچھتی رہتی ہیں کہ ’’میری سرکار کیا حکم ہے؟‘‘