دست ِ نادیدہ

514

ایک ٹی وی چینل پر ماہر ِ فلکیات، ماہر نجوم اور ایک معروف دست شناس تشریف فرما تھے ٹی وی اینکر مختلف سیاست دانوں کے بارے میں 2024 کے الیکشن کے حوالے سے سوالات کر رہا تھا میاں نواز شریف کے ستاروں کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا گیا اْن کے ستارے بہت روشن اور مضبوط ہیں مگر وزارتِ عظمیٰ کا جھکاؤ میاں شہبازشریف کی طرف ہے۔ عمران خان کے مستقبل کے حوالے سے استفسار کیا گیا تو کہا گیا اْن کے ستارے بھی بہت مضبوط اور طاقتور ہیں سو اس امکان کو یکسر اور مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ وزیرِ اعظم ہو سکتے ہیں۔ آصف علی زرداری کے حوالے سے کیے گئے سوال کے جواب میں کہا گیا کہ ان کے ستارے بھی بہت روشن اور مضبوط ہیں مگر صدرِ مملکت بنتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں البتہ مولانا فضل الرحمن صدرِ مملکت بن سکتے ہیں۔ مریم نواز اور بلاول زرداری کا وزیرِ اعظم بننے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ ماہرین کے جوابات کا تجزیہ کیا جائے تو ان کے جوابات کو صحافیوں کے چبائے ہوئے لقمے کہنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ماہرین کے تمام جوابات کالم نگاروں اور سیاسی تبصرہ نگاروں کے تجزیے سے اخذ کیے گئے ہیں۔

میاں نواز شریف کی واپسی ملک و قوم کی خدمت سے مشروط ہے کہ وہ اسی شرط پر پاکستان واپس آئے ہیں مگر وہ انتقام لینے کا ذکر کسی نہ کسی صورت میں کرتے رہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن قبل ازیں وزارتِ عظمیٰ کے لیے بھاگ دوڑ کرتے رہے ہیں شنید ہے کہ موصوف نے امریکا سے بھی مدد طلب کی تھی مگر پزیرائی نہیں مل سکی اور اب وہ صدرِ مملکت کے عہدے کے لیے سر گرم عمل ہیں حالات اور واقعات بتا رہے ہیں کہ وہ صدرِ مملکت بن سکتے ہیں اور جہاں تک آصف علی زرداری کا تعلق ہے تو موصوف اپنے فرزند ارجمند بلاول زرداری کے لیے وزارتِ عظمیٰ کا مطالبہ کرتے رہے ہیں جو شرفِ قبولیت نہ پا سکا مجبوراً انہوں نے اپنے لیے صدرِ مملکت کا عہدہ مانگ لیا مگر فیصلہ ساز قوتوں کی نظر ِ کرم مولانا فضل الرحمن کو منتخب کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔

اکثر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف وزیر ِ اعظم اور مولانا فضل الرحمن کے صدرِ مملکت بننے کے امکانات زیادہ ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں نواز شریف کب تک فیصلہ ساز قوتوں کے فیصلے پر عمل پیرا رہتے ہیں کیونکہ اْن کی وزارتِ عظمیٰ فیصلہ ساز قوتوں کی ہدایات سے مشروط ہے اگر میاں صاحب کے ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو اس امکان کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ موصوف کبھی اپنے فیصلے پر تادیر قائم نہیں رہے اس حقیقت سے انکار کی بھی گنجائش نہیں کہ جب بھی اْنہوں نے اپنے فیصلے پر نظرثانی کی وزارتِ عظمیٰ نے دامن چھڑوا لیا۔

ان کے بدلتے ہوئے بیانیے پر اگر غور کیا جائے تو موصوف اپنی سابقہ روش سے ہٹتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ اْن کے ناقدین یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ اگر وہ اپنی اِ سی ڈگر پر چلتے رہے تو وزارتِ عظمیٰ بھی ڈگمگا جائے گی اور جہاں تک تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کا تعلق ہے تو 9 مئی کے سانحہ کے بعد وہ کسی بھی عہدے کے مستحق نہیں رہے اْنہیں احتساب کے دائرے سے نکالنا ملک دشمنی کی بدترین مثال ثابت ہوگا اور قوم یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گی کہ وطن ِ عزیز کی فیصلہ ساز قوتیں بھی فیصلہ کرنے کے اختیار نہیں رکھتیں وہ درآمد اشارے کی منتظر رہتی ہیں ان کے فیصلے درآمد ہدایات کو سبب ہوتے ہیں گویا پاکستان انگریزوں کا طوق ِ غلامی اتار کر بھی خود مختار اور آزاد ملک نہیں بن سکا اور اب ہمیں سوچنا ہوگا کہ غلطی کہاں ہوئی ہے اور اس غلطی کا مرتکب کون ہے؟ اس کی تلافی کیسے کی جاسکتی ہے؟

دستِ نادیدہ کی تحقیق ضروری ہے مگر
پہلے جو آگ لگی ہے وہ بْجھا دی جائے