مزاحمت کے سوا کوئی آپشن نہیں

491

مسلمان، عیسائی اور یہودیوں میں ایک بات تو مشترکہ ہے کہ وہ سب سیدنا ابراہیمؑ کو اپنا دادا اور پیغمبر مانتے ہیں۔ اور یروشلم تینوں اہل کتاب کی مشترکہ زیارت گاہ ہے۔ ایک ایسی جگہ جہاں ہر وقت میلے کی طرح لوگ جمع رہتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو 75 سال قبل نکبہ کے وقت یہاں سے نکالے گئی تھی۔ یعقوب بھی ان ہی میں سے ایک ہے۔ 1948ء میں اس نے اسرائیلیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، یہ ان 7 لاکھ 75 ہزار فلسطینیوں میں سے ہے جن کو اسرائیلی فوج نے اپنے آبائی گھروں سے بے دخل کردیا تھا۔ وہ آج بھی اپنے آبائی علاقے میں باقاعدگی سے آتا ہے۔ اور اپنے بچپن کی یادوں کو دہراتا ہے۔ اب اس کے گھر میں دو اسرائیلی خاندان بستے ہیں۔ وہ بتاتا ہے کہ ہمیں اپنے گھروں سے بے سروسامانی کے عالم میں جان بچا کر نکلنا پڑا، ہمارے گھر میں سارا سامان، راشن اور کپڑے تھے لیکن ہمیں سب چھوڑنا پڑا۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ فلسطین عرب فلسطینی عوام کی سرزمین ہے، سرزمین فلسطین کو اسلام نے وقار عطا کیا اس کا درجہ بلند کیا یہ اسلام کی روح اور اقدار میں رچی بسی ہے، فلسطین کی سرزمین پر انسانیت دشمن نسل پرست صہیونیوں نے قبضہ کیا۔ اس قبضے کی بنیاد ایک جھوٹے وعدے (اعلان بالفور) پر طاقت اور جبر کے ذریعے رکھی گئی۔ آج اسی صہیونیوں کے انسانیت دشمن گروہ نے غزہ کی پٹی پر ایک ایک گھر میں قتل و غارت کا بازار گرم کررکھا ہے۔ غزہ کی پٹی پر چھاپوں کے دوران عام شہریوں کو قتل کررہے ہیں، گرفتار کررہے ہیں، عورتوں اور بچوں کے ساتھ بدسلوکی کررہے ہیں۔ مردوں کو برہنہ کرکے گولیاں مار رہے ہیں، انہیں ان کے خاندانوں کے ساتھ شہید کیا جارہا ہے۔ صہیونی کیا یہ کرکے سمجھ رہے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کو اس سب سے خوفزدہ کردیں گے، یہ سب کرکے تو فلسطینیوں کے نئے ریکروٹمنٹ کیمپ کھول رہے ہیں، کیا اب کوئی فلسطینی مزاحمت سے باز رہ سکتا ہے؟
اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے سیاسی بیورو کے سربراہ شیخ صالح کہتے ہیں کہ مغربی کنارے میں بھی بے مثال چیلنجوں کے باوجود مزاحمت ہورہی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہماری طاقت جس کا وہ مقابلہ نہیں کرسکتے یہ ہے کہ ہم شہادت سے محبت کرتے ہیں اور شہادت کی تمنا کرتے ہیں۔ ہمارے پاس مزاحمت کو روکنے کوئی آپشن موجود نہیں۔ جس طرح ہمارے عوام شہید ہورہے ہیں ہمارے کم عمر شہید ہمارے سروں کا تاج ہیں وہ ہم سے زیادہ معزز اس لیے ہیں کہ وہ ہم سے شہادت میں سبقت لے گئے اور ہم اسی راستے میں ہیں۔ یہ بات غلط نہیں کہ 7 اکتوبر کے بعد القسام بریگیڈ کی جانب سے اسرائیلی ریاست پر کیے گئے کاری وار کے بعد دنیا میں حماس کی مقبولیت اور پزیرائی کا ڈنکا بجنے لگا۔ حماس کی عوامی سطح پر مقبولیت سے اسرائیلی اور امریکی پریشان ہیں۔ آج جب کہ غزہ کو کھنڈر بنادیا گیا، ہزاروں فلسطینی شہید کردیے گئے جن میں آدھے سے زیادہ بچے اور خواتین ہیں، یہ بات بذات خود اسرائیلی فوج کے لیے شرمناک ہے۔ اسرائیلیوں کی سنگ دلی اور شقاوت کا عالم یہ ہے کہ وہ اسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گاہوں پر بمباری کرتے رہے۔ آج غزہ میں صحت کا کوئی ادارہ کام نہیں کررہا جبکہ 50 ہزار سے زیادہ زخمی موجود ہیں۔ اس سب کے باوجود وہ حماس کو ختم کرنے کے بجائے تقویت دے رہے ہیں۔ امریکی حکام اور میڈیا سینٹر خود بتارہے ہیں کہ حماس کی ساکھ اور اثر رسوخ میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ صہیونی افواج کو بھاری نقصان پہنچانے میں کامیابی کے بعد خود کو فلسطینی مقاصد کے محافظ کے طور پر کھڑا کرنے میں کامیاب ہیں۔
غزہ کے علاوہ دیگر فلسطینی علاقوں، مغربی کنارے میں حماس کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ کیونکہ انہیں کئی اہداف میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ جن میں دشمن کو تکلیف دینا، اس کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوے کو ہوا میں اڑا دینا، حماس کی عسکری بالادستی قائم کرنا اپنی تنظیمی اور میڈیا محاذ پر بہترین صلاحیتوں کو ثابت کرنا ہے۔ اگرچہ اس میں فلسطینی شہریوں کو بہت نقصان ہوا ہے۔ جو کہ ہر صورت میں پچھلے برسوں میں ہوتا ہی رہا ہے۔ لیکن اس سب سے فلسطینیوں کو سیاسی اور میڈیا کے بہتر استعمال کے فوائد میں حاصل ہوئے ہیں۔ ساری دنیا اور خاص طور سے عرب ممالک میں فلسطینی مزاحمت کی تحریک نے اپنا ایک خاص مقام حاصل کیا ہے۔ راکٹ میزائل اور ڈرون ان ہاتھوں نے استعمال کیے جو پہلے صرف پتھر اٹھانے پر مجبور تھے۔ اس وقت حماس کامیابی کے ساتھ ہیلی کاپٹر کو نشانہ بنا چکی ہے۔ حماس سوشل میڈیا پر بتارہی ہے کہ اب وہ طیارہ شکن میزائل Sam-18 استعمال کرے گی جو طیارہ شکن ہے، جسے ایک جنگجو کندھے پر رکھ کر فائر کرسکتا ہے، اس کے اہداف ہر قسم کے جہاز اور ہیلی کاپٹر ہیں۔ تحریک مزاحمت (حماس) کا یہ نیا ہتھیار غیر معمولی ہے جس نے صہیونی افواج کی نیندیں اڑا دی ہیں اور ان پر دہشت طاری کردی ہے۔ اور اس سے اہم بات یہ ہے کہ دنیا ان کی بات سن رہی ہے اور اہمیت دے رہی ہے۔