ہنی مون

497

کچھ دن قبل سیاسی مبصرین کہا کرتے تھے کہ حالیہ انتخابات میں سندھ بھی پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے نکل جائے گا اب کہہ رہے ہیں کہ فیصلہ ساز قوتوں اور سابق صدرِمملکت آصف علی زرداری کے مابین ڈیل ہو گئی ہے جس کے تحت سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہی رہے گی۔ کہنے والوں کا کہنا ہے کہ اس ڈیل کا پس ِ منظر یہ ہے کہ بلاول زرداری نے الیکشن سے پہلے مسلم لیگ کی حکومت کی پیش گوئی کی تھی۔ شایہ اْنہیں یہ باور قرار دیا گیا تھا کہ آئندہ پیپلز پارٹی کی حکومت ہوگی لیکن زرداری صاحب نے واضح لفظوں میں کہا کہ میاں نواز شریف کو وزریر ِ اعظم نہیں بننے دیں گے موصوف نے اپنے فرزند ِ ارجمند کو باور کروایا کہ سندھ اْن کے ہاتھوں سے نکل گیا تو پھر تم وزارتِ عظمیٰ کا خواب دیکھنا بھو ل جاؤ۔ بلاول زرداری بھی سمجھ گئے کہ اگر سندھ حکومت ہاتھوں سے نکل گئی تو ان کے ہاتھوں کے توتے بھی اْڑ جائیں گے اور اْن کی سیاسی چھتری پر بیٹھے کبوتر بھی اْڑ جائیں گے اور پیپلز پارٹی کا انجام بھی ایم کیو ایم کی طر ح ہوگا۔

سیاست طاقت کا کھیل ہے اور جمہوریت بچہ جمہورا کا کھیل ہے سندھ پیپلز پارٹی کی طاقت ہے ایک ایسی طاقت جو وفاق کی حکومت کو سرنگوں ہونے پر مجبور کر دے گی۔ سابق صدرِ مملکت آصف علی زرداری کی کامیابی کا سبب یہی ہے کہ اْنہوں نے پاکستان کی سیاسی تاریخ ازبر کی ہوئی ہے۔ کچھ کہنے سے پہلے وہ سیاسی واقعات کا ورد کرتے ہیں۔ شیخ رشید کا المیہ یہی ہے کہ وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کو نظر انداز کر کے اپنے اندازے کو پیش گوئی کا نام دیتے ہیں اگر وہ بھٹو مرحوم الطاف حسین اور میاں نواز شریف کی سیاسی زندگی کے نشیب و فراز پر غور کرتے تو اْنہیں اندازہ ہوتا پاکستان کی سیاسی راہ داریاں ایسی بھول بھلیّاں ہیں جن میں بھٹکنے والا بھٹکتا ہی رہتا ہے۔

جمعیت علماء اسلام کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت پیپلز پارٹی کی بنے یا مسلم لیگ ن کی صدرِ مملکت تو مولانا فضل الرحمن ہی بنیں گے شاید سابق صدرِ مملکت آصف علی زرداری کو بھی احساس ہوگیا ہے کہ مولانا فضل الرحمن صدرِ مملکت بن سکتے ہیں۔ وزراتِ عظمیٰ نہ ملنے کی صورت میں دھرنا دینے کا بیان بلاول زرداری اپنی مرضی سے نہیں دے سکتے بلاول زرداری دھرنا پالیسی کو فرسودہ سیاست سمجھتے ہیں جسے سال خوردہ سیاست دان تاحال سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔

حالات اور واقعات بتا رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کی وزارت کو انہوں نے صدرِ مملکت کے عہدے سے مشروط کردیا ہوگا مگر فیصلہ ساز قوتیں اْنہیں صدرِ مملکت کے عہدے پر براجمان دیکھنا نہیں چاہتیں۔ سو، اْنہوں نے سندھ کی حکومت کا مطالبہ کردیا ہوگا جسے سیاسی مجبوری کے تحت شرفِ قبولیت کی سند سے نواز دیا ہوگا۔ پیپلز پارٹی سیاسی سمندر کی مچھلی ہے اقتدار کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ وہ سیاسی سمندرکی شارک ہے جس کی مرغوب غذا چھوٹی مچھلیاں ہیں۔

سابق صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے مسلم لیگ ن سے کہا تھا کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کرانے میں ہمارا کردار بہت اہم تھا ہم نے نہ صرف تحریک کامیاب کرائی بلکہ میاں شہباز شریف کو وزیر ِ اعظم بننے میں بھرپور تعاون کیا اور اب ہم اپنی خدمات کا صِلہ چاہتے ہیں۔ موصوف نے صلے میں بلاول زرداری کے لیے وزراتِ عظمیٰ طلب کی تھی جسے تسلیم نہیں کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ آصف علی زرداری مکالمے کے بادشاہ ہیں ایک تجویز ناکام ہوجائے تو دوسری پیش کردیتے ہیں غالباً اْنہوں نے دوسری تجویز پیش کرتے ہوئے کہا ہوگا کہ میں آپ کی دلیل سے متفق ہوں۔ بلاول زیر ِ تربیت ہے وہ وزاتِ عظمیٰ کا اہل نہیں لیکن میں تو ایک تجربہ کار سیاست دان ہوں قبل ازیں صدرِ مملکت رہا ہوں اس تناظر میں صدرِ مملکت کے عہدے کے لیے میرا انتخاب بہتر رہے گا اس تجویز پر غور کرنے کے لیے مہلت طلب کی گئی ہوگی کیونکہ مولانا فضل الرحمن بھی صدرِ مملکت کے عہدے کے طلب گار ہیں۔ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی جدوجہد نے تحریک ِ انصاف سے نجات دلانے میں جو کردار ادا کیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ صدرِ مملکت کا عہدہ اْنہیں دیا جائے کیونکہ عمران خان کے خلاف جس اتحاد نے عدم اعتماد کی تحریر پیش کی تھی مولانا فضل الرحمن اْس کے صدر تھے۔ اس لیے صدرِ مملکت کے عہدے کا حقدار کوئی اور نہیں ہوسکتا اور جہاں تک پیپلزپارٹی کا تعلق ہے تو اْ س کی خدمات کے صلے میں بلاول زرداری کو وزیر ِ خارجہ بنا دیا گیا تھا جسے بعض سیاست دان سیاسی ہنی مون کہتے ہیں۔