نوٹوں سے مشروط موڈ

440

’’امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے این اے 6 دیرپائن کی نشست پر کاغذات نامزدگی جمع کرادیے۔ تیمرہ گرہ میں کاغذات جمع کرانے کے موقع پر مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے چار بنیادی مطالبے کیے ہیں:

اول: قومی انتخابات شفاف، غیرجانبدارانہ ہوں اور الیکشن مہم میں دولت کی ریل پیل اور نمائش کا خاتمہ ممکن بنایا جائے۔
دوم: الیکشن ضابطہ پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔
سوم: انتخابات میں بیرونی عناصر اور اداروں کی مداخلت نہ ہو۔
چہارم: الیکشن کمشنر اپنے حلف کی پاسداری کرے

ان مطالبات کا صاف اور کھرا جواب تو یہی ہے کہ ’’سوری سر! کوئی مطالبہ قبول نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ اگر یہ مطالبات قبول کر لیے گئے تو بہت سوں کے مقدر مکدر ہو جا ئیں گے۔ یہ وعدے ایسے ہی ہیں جیسے میڈیکل کا ہر طالب علم کہتا ہے ’’میں ڈاکٹر بن کر دکھی انسانیت کی خدمت کروں گا‘‘ اور پھر ڈاکٹر بن کر وہ صرف اور صرف اپنی خدمت کرتا ہے کیونکہ ڈاکٹر بننے تک اس سے زیادہ دکھی کوئی نہیں رہتا۔ جہاں تک سوال ہے جمہوریت میں عوام کے حقوق کی پاسداری کا، یہ محض فریب ہے۔ پتھروں پہ پڑی مٹی جسے حقائق کی ہلکی سی بارش بہالے جائے۔ آئیے صرف پہلے نکتے دولت کی ریل پیل پر ہی بات کرکے دیکھ لیتے ہیں۔

وطن عزیز میں الیکشن کے موقع پر سب سے کم ’’عقل‘‘ اور سب سے زیادہ ’’پیسہ‘‘ خرچ کیا جاتا ہے۔ ہم ایک ایسی جمہوریت سے اپنی تاریخ اور تقدیر کو بنانے اور اس کا رخ موڑنے میں لگے ہوئے جس میں اصول، قواعد اور قوانین نہیں پیسہ بنیادی، بہت گہرا اور ہمہ گیر کردار ادا کرتا ہے اور اس میں کوئی عیب بھی نہیں سمجھا جاتا۔ اصغر خان کیس یاد ہے جس میں عدالت عظمیٰ نے 1990 کے انتخابات میں سابق صدر غلام اسحاق خان، جنرل مرزا اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کی طرف سے ایوانِ صدر میں سیاسی سیل کے قیام اور سیاسی جماعتوں اور شخصیات کو رقوم دینے کی سرگرمیوں کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ تفصیلات کے مطابق اسلامی جمہوری اتحاد کے قیام اور اس کی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک بینک سے چودہ کروڑ روپے حاصل کیے گئے تھے جس میںآدھی سے زائد رقم مختلف سیاستدانوں اور جماعتوں میں بانٹ دی گئی۔ 56سے زائد شخصیات تھیں جنہیں ادئیگیاں کی گئی تھیں۔ کیا یہ سب کچھ سامنے آنے کے بعد کسی کو شرمندگی محسوس ہوئی؟ کیا اس کے بعد الیکشن میں پیسے کا استعمال کبھی قانونی حدود کے اندر رہا؟۔

پاکستان میں جمہوریت میں پیسے کا ناروا کردار ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ الیکشن لڑوانے اور جتوانے میں قانون شکنی کہیں یا تجاوز جمہوریت میں پیسے کے علاوہ کوئی اور چیز بنیادی ستون نہیں۔ ستم در ستم یہ مسئلہ صرف پاکستان کے جمہوری نظام کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہر جمہوریت کا حصّہ ہے۔ ہر جگہ الیکشن موڈ نوٹوں سے مشروط ہے۔ امریکا میں بھی بااندازِ دیگر یہی ہوتا ہے۔ امریکا میں جو امیدوار صدارتی الیکشن کے لیے کھڑا ہوتا ہے اپنے الیکشن اخراجات پورے کرنے کے لیے اسے عام لوگوں سے فنڈنگ کے ذریعے ایک مخصوص رقم جمع کرنی ہوتی ہے یہ فنڈز اکھٹا کرنے کے بعد اسے حکومتی خزانے سے انتخابی مہم چلانے کے لیے پیسے دیے جاتے ہیں۔ بھرپور انتخابی مہم چلانے کے لیے چونکہ ڈالر پانی کی طرح بہانا لازم ہے اس لیے امیدوار کو عام شہریوں کے علاوہ سرمایہ دار ملٹی نیشنل کمپنیوں اور مالیاتی اداروں کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ سرمایہ دار کمپنیاں اس بنیاد پر امیدوار کو سرمایہ فراہم کرتی ہیں کہ کامیاب ہونے کے بعد وہ نہ صرف ان کے مفادات کا تحفظ کرے گا بلکہ ان کے حق میں قانون سازی بھی کرے گا۔ ایک عام آدمی کے مقابلے میں ان بڑی بڑی کمپنیوں اور مالیاتی اداروں کے پاس چونکہ ڈالرز کے پہاڑ ہیں وہ جسے مالی سپورٹ کریں اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ مگر قانونی طور پر رکاوٹ یہ تھی کہ بڑی بڑی کمپنیاں امیدوار کو براہِ راست رقُوم مہیا نہیں کرسکتی تھیںلیکن غالباً2011 میں امریکی عدالت عظمیٰ نے یہ مشکل بھی حل کردی اور ایک فیصلے میں قرار دیا کہ بڑی بڑی کمپنیاں انتخابی مہم کے لیے کسی بھی امیدوار کو یا اپنے پسندیدہ امیدوار کو براہِ راست پیسہ دے سکتی ہیں۔ جواز یہ کے جس طرح ایک فرد کو آزادی ہے اسی طرح بڑی بڑی کمپنیاں بھی یہ حق رکھتی ہیں کہ اپنے پسندیدہ امیدوار کو فنڈزدے سکیں۔ یوں امریکی جمہوریت میں پیسے کی عملداری اور اقتدار تک پہنچنے کے لیے پیسے کے کردار کو نہ صرف تسلیم کرلیا گیا ہے بلکہ اسے قانونی حیثیت بھی دے دی گئی ہے۔ پاکستان میں تا حال قانونی طور پر یہ جرم ہے۔

جمہوریت میں ایوانِ اقتدار تک رسائی پیسے کا کرشمہ ہے۔ لوگوں کی، لوگوں کے لیے اور لوگوں پر مشتمل جمہوریت اگرچہ دنیا میں کبھی وجود نہیں پاسکی لیکن اب جمہوریت کا یہ تصور بھی فرسُودہ ہی نہیں بلکہ متروک ہو چکا ہے۔ 6نومبر 2012 کے امریکی انتخابات میں مختلف گروپوں نے ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز کو چندہ میں جو رقم دی ہے وہ 36کروڑ 16 لاکھ 38ہزار 9سو 28ڈالر ہے۔ پاکستانی روپے میں یہ رقم 87ارب 29کروڑ 20لاکھ 5سو 34 روپے بنتی ہے۔ یہ امریکا کے مہنگے ترین الیکشن تھے۔ امریکی بینڈ باجے میں شامل باجے کا کردار ادا کرنے والے پاکستانی حالیہ الیکشن کو جمہوریت کے حُسن سے تعبیر کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ تشہیری مہم اور انتخابی دوروں میں خرچ کی گئی 6ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم نے 32کروڑ امریکیوں کی زندگی کا فیصلہ کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

اس امریکی الیکشن میں صرف صدر اوباما اور مِٹ رومنی کے نام سامنے لائے گئے حالانکہ اور بھی امیدوار تھے لیکن ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ انتخابی مہم چلاسکیں امریکی میڈیا میں ان کا نام تک نہیں لیا گیا۔ یہ اس حقیقت کا مظہر ہے کہ جمہوریت میں جس کے پاس پیسے ہوں گے صرف وہی انتخابات میں حصّہ لینے کا حقدار ہے۔ ڈیموکریٹ ہوں یا ری پبلکنز دونوں امریکا کے مراعات یافتہ طبقوں کے مہروں سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتے۔ مغربی جمہوریت عملی طور پر مراعات یافتہ طبقوں کی ایجنسی بن کر رہ گئی ہے جو مٹھی بھر امیروں کو بہت زیادہ امیر اور غریبوں کی غربت میں بے پناہ اضافہ کرتی چلی جا رہی ہے۔ امریکا میں جب جب کسانوں مزدوروں اور دانشوروں نے اپنی پارٹیاں بنائیں انہیں سرمایہ دار طبقے نے پنپنے نہیں دیا۔ امریکی جمہوریت وال اسٹریٹ اور پینٹاگون کے تابع ہے۔ ایک فی صد آبادی ملک کی ننانوے فی صد دولت پر قابض ہے اور اس کے بل بوتے امریکا پر حکومت کر رہی ہے جب وال اسٹریٹ پر قبضہ کی تحریک نے سر اٹھایا تودھرنا دینے والوں پر ڈنڈے برسائے گئے اور آنکھوں میں پچکاریوں سے پسی ہوئی مرچیں ڈال کراندھا کر دیا گیا۔

ماضی میں پاکستان میں اصغر خان اور اب امیر جماعت اسلامی جیسے کچھ دیوانے ہر الیکشن کے موقع پر الیکشن مہم میں پیسے کا بے حد و حساب استعمال روکنے کی بات کرتے ہیں۔ جمہوریت کو بے قاعدگیوں اور سانحوں سے بچانے کے لیے کرپٹ افراد سے پاک کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟ پیسے کا ناجائز استعمال اور کرپشن جمہوری نظام کا لازمی جز ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ الیکشن شفاف ہوں یہ کیسے ممکن ہے؟ ہمارے یہاں ہر جگہ دونمبری ہے۔ نصف ایمان ہم صفائی کو نہیں ہاتھ کی صفائی کو سمجھتے ہیں۔ ہمارے یہاں نیچے سے اوپر تک ہر جگہ کرپشن ہے۔ کسی بھی محکمے میں کوئی کام بغیر پیسے اور رشوت کے کروا کے دکھا دیجیے!! ہم نے جنرلوں کو بھی آزماکر دیکھ لیا اور سویلینز کو بھی ہر عہد میں کرپشن کا گراف اوپر ہی اوپر گیا ہے۔ پرانوں کو بھی تین تین چار چار مرتبہ آزما کر دیکھ لیا اور تبدیلی سر کار کو بھی جس نے پہلی مرتبہ ہی وہ دند مچائی کہ پچھلوں پر پیار آنے لگا۔ جو جنرلز بڑے چائو سے عمران خان کو لائے تھے بعد میں انہوں نے ہی نواز شریف کا راستہ صاف کیا۔ جب پورا معاشرہ ہی کرپٹ ہو تو الیکشن بھی اسی کرپٹ معاشرے کا عکس اور سایہ ہوں گے۔ الیکشن میں حصہ لینے کے لیے آسمان سے تو لوگ اترنے سے رہے۔ اور اگر چلیں مان لیں کہ الیکشن والے دن یکا یک ہم سب فرشتے بن جائیں اورکسی نہ کسی طرح ملک میں صاف الیکشن کا انعقاد ممکن ہوسکے تو کیا شفاف انتخابات کا کوئی فائدہ عوام کو ہوگا۔ جن ممالک میں شفاف الیکشن ہوتے ہیں کیا وہاں عوام کے مسائل حل ہوئے ہیں یا ان میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کی مثال سامنے ہے۔ بھارت کی نام نہاد ترقی کی قیمت اس ملک کے مسلمان اور دیگر اقلیتیں چکا رہی ہیں۔ نریندر مودی کی کامیابی مسلمانوں کے قتل عام اور دیگر اقلیتوں کے استیصال سے مشروط ہے۔ الیکشن صاف شفاف ہوں یا کرپٹ نظام تو سرمایہ داریت کا ہی کام کرے گا۔ جو عصبیتوں کو فروغ دیتا ہے۔ پاکستان صدیوں قائم رہے اگرسرمایہ دارانہ نظام ہے جمہوریت ہے انسان کا بنایا ہوا نظام اور قوانین نافذ ہیں انسانیت کی نجات ممکن نہیں۔ نجات صرف اسلام کے نظام میں ہے جس کے ہم پلّہ کوئی دوسرا نظام نہیں۔