کشمیر میں صحافت

426

پانچ اگست 2019ء میں بھارت کی جنتا پارٹی کی حکومت نے بھارتی آئین کی شق 370 کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔ جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کی نیم خود مختار حکومت اور خصوصی اختیارات کا خاتمہ کردیا گیا۔ اس فیصلے کے اثرات بہت اہم تھے اس قانون کے ساتھ آرٹیکل 35اے بھی ختم ہوگیا جس کے تحت ریاست کے باشندوں کی بطور مستقل باشندے کے پہچان ہوتی ہے اور انہیں بطور مستقل شہری خصوصی حقوق ملتے تھے۔ اس قانون کے تحت جموں و کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں غیر منقولہ جائداد کا مالک نہیں بن سکتا تھا۔ مگر یہاں سرکاری نوکری حاصل نہیں کرسکتا تھا اور نہ ہی کشمیر میں وہ آزادانہ سرمایہ کاری کرسکتا تھا۔ اب اس قوانین کی حفاظتی دیوار گرنے کے نتیجے میں کشمیری باشندوں کے فلسطینیوں کی طرح بے وطن ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ ہندوستان کے تمام علاقوں کے غیر مسلم آبادکار یہاں آکر زمینوں، وسائل اور روزگار پر قابض ہوجائیں گے۔ اس قانون کے نفاذ کے اعلان سے دو روز پہلے کشمیر میں کرفیو نافذ کردیا گیا تھا۔ ساتھ ٹیلی فون موبائل اور انٹرنیٹ کی سہولتیں معطل کردی گئی تھیں۔ پھر سارے سیاسی لیڈروں کو قید کردیا گیا تھا۔ علٰیحدگی پسند اور بھارت نواز رہنمائوں میں یہ فرق رکھا گیا کہ دوسری ساری جماعتوں کو تو چند سال قبل ہی کالعدم قرار دے دیا گیا تھا اور ان کے رہنمائوں کو جیل میں ڈال دیا گیا تھا جبکہ بھارت نواز رہنمائوں کو سرکاری گیسٹ ہائوس میں نظر بند کیا گیا تھا۔ اس قانون اور آرٹیکل کے خاتمے کے بعد بھارت کے آٹھ سو قوانین کشمیر میں لاگو ہوگئے تھے ان سب غیر قانونی اور غیر آئینی کاموں سے پہلے بھارت نے کشمیر میں میڈیا کو کڑی سنسر شپ لگائی گئی۔ صحافیوں کو گرفتار کیا گیا ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے مقدمات درج کیے گئے۔ کشمیر پریس کلب کو بند کردیا گیا۔ اس وقت کشمیری صحافیوں کے خیال میں کشمیر میں صحافت مر چکی ہے۔ صحافیوں کے لیے پولیس اسٹیشن سے کال آنا معمول کی پوچھ گچھ کے لیے بار بار بلانا ان کے خاندان اور گھر والوں کے بارے میں تفصیل سے باقاعدہ رپورٹ لینا اور ریکارڈ رکھنا اور دھمکی کی صورت میں اس رپورٹ کو سنانا معمول ہے۔ صحافیوں کا خیال ہے کہ ان کے ساتھ مجرموں کی طرح سلوک کیا جاتا ہے۔ کئی صحافیوں کو جن میں آصف سلطان اور دیگر بہت سے صحافی بھی شامل ہیں طویل گرفتاری کا سامنا ہے۔ فہد شاہ سجاد گل کو بھی ایک عبرت ناک مثال کے طور پر میڈیا میں پیش کیا گیا، انہیں طویل قید میں رکھا گیا۔ آصف سلطان پچھلے پانچ سال سے قید میں ہیں۔ کشمیری صحافیوں کے لیے باہر کے سفر پر بھی غیر اعلامیہ پابندی ہے۔ بورڈنگ پاس پر امیگریشن میں بغیر کسی وجہ کے منسوخی کی مہر لگانا ایک معمول کی بات ہے۔ پچھلے دنوں ’’پلٹزر ایوارڈ‘‘ یافتہ ثنا ارشاد کو ائرپورٹ پر روک لیا گیا۔ صحافیوں کے پاسپورٹ منسوخ کرنا بھی ایک عام بات ہے۔ صحافت پر دبائو کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب گزشتہ سال سید علی گیلانی کا انتقال ہوا اکثر اخبارات میں ان کی موت کی خبر ایک ہی کالم میں شائع کی گئی۔ صرف ایک انگریزی اخبار نے کچھ تفصیل علی گیلانی کی تصویر کے ساتھ شائع کی تو اگلے ہی روز سزا کے طور پر اس کے اشتہارات بند کردیے گئے اور اب تک جاری نہیں کیے گئے۔ اس سے قبل کشمیری رہنما اشرف صحرائی جیل میں انتقال کرگئے تو کشمیر کے اکثر اخبارات نے اس کو رپورٹ تک نہیں کیا۔ حالات یہ ہیں کہ اگست 2019ء میں بھارتی آئین کی دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد سے کشمیری صحافیوں کی زندگی کانٹوں پر ننگے پائوں چلنے کی مترادف ہوگئی ہے۔ حکومت پر کسی قسم کی تنقید تو دور کی بات اس کی پالیسی سے اختلاف تک برداشت نہیں کیا جاتا۔ یہاں تک کہ کشمیری حریت پسندوں کی ہلاکت کی خبریں آرہی ہوں تو اخبارات کو گل ولالہ کی تصویروں سے سجانا پڑتا ہے۔ کشمیر میں پچھلے پانچ سال

سے کوئی منتخب حکومت نہیں ہے۔ حکومت کی طرف سے انتخابات کے لیے کوئی مثبت جواب نہیں دیا گیا ہے۔ ایڈیٹروں کو انتظامیہ کی طرف سے خصوصی ہدایات موصول ہوتی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ کسی چیز کو رپورٹ کرنا ہے اور کیا چھوڑنا ہے یہاں تک ہدایت کی جاتی ہے کہ کشمیری مجاہدین کا ذکر اگر لازمی کرنا پڑے تو عسکریت پسند بھی نہیں لکھنا بلکہ دہشت گرد کا لفظ استعمال کرنا ہے۔ کشمیری صحافی ہر لمحہ خوف کے سائے میں رہتا ہے۔ شجاعت بخاری جو معروف ایڈیٹر تھے ان کو اپنے دفتر کے باہر گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ اب حال یہ ہے کہ پانچ سال بعد بھی ان کے قتل کا مقدمہ ہی شروع نہیں ہوا۔ آج کشمیر میں صحافت کرنا تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے۔ اسی لیے کشمیری صحافی یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ کشمیر میں صحافت مرچکی ہے اور وہیں دفن ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مودی کی سیاست صہیونی طریقہ سیاست کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش میں ہے۔ وہ کتنی کامیاب ہوگی یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ ہاں یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ مودی کی سیاست بھارت کی بنیادوں کو کمزور کررہی ہے۔