جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی

399

’’شاہ ولی اللہ کا فلسفہ اصل میں مستقبل کا فلسفہ ہے۔ شاہ ولی اللہ کی جو سب سے معرکہ آرا کتاب ہے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ اس کے مقدمے میں وہ فرماتے ہیں کہ ’’مجھے یہ غیبی الہام ہوا ہے کہ امت مسلمہ ایک ایسے دور میں داخل ہونے والی ہے جب دین کی تعلیم کو برہان (روشن اور واضح دلیل، قطعی ثبوت) کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا اور دینی احکام اور دینی عقائد کی جو عقلی توجیہہ ہے وہ کرنی پڑے گی‘‘ لہٰذا اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں۔ ہمارے مدرسے نیوٹائون میں تو یہ کتاب (حجۃ اللہ البالغہ) شامل درس تھی خود مولانا یوسف بنوریؒ اس کا درس دیا کرتے تھے۔ اس کو شامل درس ہونا چاہیے۔ شاہ ولی اللہ کا فلسفہ یہ ہے کہ جتنے احکام شریعت ہیں وہ فطرت انسانی کے تقاضوں کی تکمیل ہیں اور کہیں انہوں نے لکھا ہے کہ رسول اکرمؐ کا معجزہ صرف قرآن نہیں ہے بلکہ شریعت بھی آپ کا معجزہ ہے کیونکہ شریعت میں نہ صرف اجتماعی پہلوئوں کا احاطہ ہے بلکہ انفرادی پہلوئوں کا بھی احاطہ ہے۔ صرف دائمی زندگی کے جو عناصر ہیں شریعت صرف ان ہی کو ریگولیٹ نہیں کرتی بلکہ جو تغیر پزیر حالات ہیں ان کا بھی حل پیش کرتی ہے تو اس طرح کی ہمہ گیر اور جامع شریعت رسول اللہؐ کا معجزہ ہے اور یہ چونکہ قرآن میں محفوظ ہے، سنت میں محفوظ ہے اس لیے یہ ہمیشہ قائم دائم رہے گی اور یہ مسلمان امت کا اور علماء امت کا فرض ہے کہ وہ اس شریعت کی برتری کو ثابت کرتے رہیں‘‘۔
یہ آواز تھی جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی کی۔ جج عدالت عظمیٰ پاکستان۔ چند دن پہلے 18دسمبر 2023 علم وفضل کا یہ باب بند ہوگیا۔ ان کا عرصہ حیات تمام ہوا۔ مگر سوائے ان کے جنہوں نے ان سے اکتساب نور کیا کسی کو خبر ہی نہیں ہوئی۔ سوشل، پرنٹ الیکٹرونک میڈیا پر ’’مجازی جلسہ‘‘ کی شوریدگی، شورو غل اور ہنگامہ سانپ کے پھن کی طرح لہراتا رہا لیکن کسی کو فرصت تھی نہ دماغ کہ اس عظیم خسارے کی بھی نشاندہی کرسکے جو ڈاکٹر صاحب کی رخصت کی صورت ہمیں بطور قوم درپیش تھا۔ زندگی کے نشیب وفراز میں آدمی نہ جانے کہاں کہاں بھٹکتا رہتا ہے۔ کہا جاتا ہے انسانی دماغ کے دو ارب خلیات ہیں مگر متحرک اور مصروف عمل صرف چند ہزار ہی رہتے ہیں۔ یہ تحرک اور عمل بھی تب ہی مثبت رہ سکتا ہے جب کسی کی صحبت سعید میسر ہو۔ جنید بغدادیؒ سے دریافت کیا گیا ’’عافیت کس چیز میں ہے؟‘‘ فرمایا:
’’عافیت گمنامی میں ہوتی ہے
گمنامی نہ ہو تو تنہائی میں
تنہائی نہ ہو تو خاموشی میں
اور خاموشی نہ ہوتو صحبت سعید میں‘‘
اللہ مغفرت فرمائے ڈاکٹر امام الغزالی ایسی ہی صحبت سعید تھے۔
ڈاکٹر محمد الغزالی 27 ستمبر 1954ء کو کراچی میں پیدا ہوئے، ان کے والد مولانا ’’محمد احمد تھانوی‘‘ تھانہ بھون، انڈیا سے تعلق رکھتے تھے، اور اس وقت وہ کراچی میں مقیم تھے۔ ان کا نام پاک و ہند میں مروج روایت کے برعکس والد گرامی نے صرف ’’محمد رکھا‘‘، جسے بعد میں ان کے بڑے بھائی ’’ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ‘‘ نے محمد الغزالی کر دیا۔ پھر تا عمر وہ اسی نام سے معروف رہے۔ ابتدا میں انہوں نے حفظ قرآن کی تکمیل کی، اس کے بعد درس نظامی میں داخلہ لیا، ساتھ ساتھ فاضل عربی کی بھی تکمیل کی۔ انہوں نے ایم اے عربی، پنجاب یونیورسٹی لاہور سے، اور پی ایچ ڈی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے کیا۔
ڈاکٹر محمد الغزالی نے ابتدا میں 1978ء اور 1979ء کے دوران پاکستان ٹیلی ویژن کے پروگرام اللسان العربی میں عربی کے معلم کے فرائض سرانجام دیے۔ پھر سینئر ریسرچ آفیسر، اسلامک آئیڈیلوجی کونسل، حکومت پاکستان کے طور پر جولائی 1979 سے اکتوبر 1981 تک مصروف عمل رہے۔ اکتوبر 1981ء سے اپریل 1985ء تک اسسٹنٹ پروفیسر، عربک اسٹڈیز اینڈ لٹریچر ڈیپارٹمنٹ، بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد اور 1985ء سے 1991 اور 1993ء سے 1995ء تک ایسوسی ایٹ پروفیسر مصروف عمل رہے۔
اسی دوران آپ 1985ء میں مدیر الدرسات الاسلامیہ مقرر ہوئے یہ ایک سہ ماہی تحقیقی مجلہ ہے، جو ادارہ تحقیقات اسلامی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے شائع ہو رہا ہے یہ مجلہ 1965 سے تسلسل اور تواتر کے ساتھ شائع ہو رہا ہے ڈاکٹر صاحب 2018ء تک اس کی ادارت کی ذمے داریاں نبھاتے رہے۔
جب کہ آپ جولائی 1991ء سے جون 1994ء تک بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی، کولامپور ملائشیا سے بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر بھی منسلک رہے۔ پھر مارچ 2007ء میں آپ پروفیسر اور سربراہ شعبہ فکر ِ اسلامی، اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ، بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد اور اسی منصب سے 2014 میں آپ ریٹائر ہوئے۔ جب کہ الدراسات الاسلامیہ کی ادارت کی ذمے داری آپ کے پاس 2018ء تک رہی۔25مارچ 2010ء کو آپ بطور جج عدالت عظمیٰ، ایڈہاک رکن شریعہ اپیلیٹ بینچ مقرر ہوئے اور وفات تک اس منصب پر فائز رہے۔ آپ نے گریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ اور پی ایچ ڈی کی سطح تک مختلف کلاسوں میں پاکستان اور بیرون پاکستان عربک لینگویج، گرامر اور بلاغت۔ قرآنی علوم۔ علم الکلام۔ قرآن میں سماجیات کی بنیادیں اور اصول۔ عربی / اسلامی ادب میں برصغیر پاک و ہند کا کردار۔ سماجی علوم کا تعارف۔ مذہب کا فلسفہ۔ اسلامی فلسفہ۔ اسلامی سماجیاتی ادب اور خاص طور پر قرآن کا مطالعہ، جو پی ایچ ڈی کی سطح پر کرایا جانے والا کورس ہے، اس مدت میں آپ کے زیر تدریس رہا۔
تازندگی ڈاکٹرصاحب انتہائی فاضل شخصیت کے طور پر پہچانے جاتے رہے۔ ملکی اور قومی سطح پر بے شمار مواقع پر حکومتی اور اداراتی سطح پر بھی آپ کی شخصیت سے استفادہ کیا گیا۔ آپ عربی اور انگریزی کی انتہائی فاضل شخصیت کے طور پر دنیا بھر میں متعارف تھے۔ دونوں زبانوں میں آپ کی تحریر اور تقریر کی صلاحیت کی دنیا معترف تھی۔ فارسی اور فرنچ زبان سے بھی آپ واقفیت رکھتے تھے۔ اسلام آباد کے علمی اور سفارتی حلقوں میں آپ کی رفاقت کی تڑپ بے حد تھی۔ اسلام آباد میں متعین سفراء اور سفارت کار آپ سے استفادہ کرنا اپنی سعادت سمجھتے تھے۔
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وصیت تھی کہ ان کی نماز جنازہ ڈاکٹر محمد الغزالی پڑھائیں۔ دونوں رفیع الشان شخصیات میں نہ جانے یہ کس کا اعزاز تھا کہ فیصل مسجد میں ڈاکٹر عبدالقدیر کی نماز جنازہ ڈاکٹر محمد الغزالی نے پڑھائی۔ اس کے علاوہ بھی آپ نے بہت سے اہم مواقع پر فیصل مسجد میں امامت اور خطابت کے فرائض بھی انجام دیے۔ مختلف ممالک میں اسلام کی دعوت اور اسلام کے پیغام کی ترویج آپ کے وجود کے اثبات کی وہ گواہی تھی جس میں آپ پیش پیش رہے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے افکار کی دنیا میں تا زندگی ستاروں کی گزرگاہوں پر سفر کرتے رہے۔ شاہ ولی اللہ ؒ کا فلسفہ آپ کا خاص موضوع تھا۔ اس خاک دان سے اپنا سفر تمام کرکے وہ بلندیوں کے سفر پر روانہ ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ انہیں اپنے سایہ رحمت میں آسودہ رکھیں۔ آمین۔ ثم آمین