قضیہ فلسطین اور امت مسلمہ کا مدوجزر (2)

572

یہاں مختلف حوالوں، مختلف علاقوں اور مختلف زبانوں کے لوگ موجود ہیں۔ یہ پولرائزیشن، معاشرے کی تکثیریت، دنیا بھر میں موجود ہے۔ مدینہ طیبہ میں بھی رسول کریمؐ نے اسے ختم نہیں فرمایا تھا۔ ختم کرنا یہ ہوتا کہ آپ فرماتے کہ آج سے کوئی مہاجر ہے اور نہ انصاری۔ غزوات میں جب مختلف دستے تشکیل دیے جاتے تھے، صفیں بنائی جاتی تھیں۔ صفوں میں مختلف چھوٹے بڑے کمانڈرز متعین ہوتے تھے، جن کی اپنی اپنی ذمے داریاں ہوتی تھیں۔ ان ذمے داریوں کے ساتھ ان کے علم ہوتے تھے، جھنڈے ہوتے تھے۔ آپؐ نے اس وقت تک مہاجرین کے جھنڈوں کو، مہاجرین کے امراء کے جھنڈوں کو اور انصار کے جھنڈوں کو اور ان کے امراء کے جھنڈوں کو الگ الگ رکھا ہے لیکن تعلیم کیا دی کہ جو انسان دوسرے انسان سے معاملہ میں جس قدر بلند ہوگا اور اللہ کے ساتھ اپنے تعلق میں جس قدر تقویٰ کا حامل ہوگا اللہ کے ہاں وہ اسی قدر بلند ہوگا۔ اس کے علاوہ نہ کسی مہاجر کو انصاری پر فضیلت ہے اور نہ کسی انصاری کو مہاجر پر فضیلت ہے۔ کیونکہ ’’ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم‘‘۔ اللہ کے ہاں معزز اور محترم وہ ہے جو اللہ سے زیادہ ڈرتا ہے۔ ڈرنے کے مفہوم میں دو باتیں ہیں، اوّل اللہ نے جو کہا وہ کرنا ہے دوم جن سے منع کیا ان سے رُک جانا ہے۔ یہ امت کا تصور ہے جو مواخات کے ذریعے آپؐ نے پروان چڑھایا۔

امت کے اس تصور کو کچھ چیزیں وہ ہیں جو پروان چڑھانے، آگے بڑھانے، تقویت دینے اور مضبوط کرنے والی ہیں۔ کچھ چیزیں وہ ہیں جو نقصان پہنچانے والی اور امت کی بنیاد کو ڈھا دینے والی ہیں۔ آپؐ نے کچھ ہدایات دیں جن کی وجہ سے امت کا تصور آگے بڑھے گا اور کچھ ہدایات دیں جو امت کے تصور کو نقصان پہنچانے والی چیزوں سے ہمیں محفوظ رکھیں گی۔ سب سے اہم بات آپؐ نے فرمائی کہ کسی بھی شخص کے ساتھ معاملہ میں اہم چیز ہے ’’خیر خواہی‘‘۔ ’’الدین النصیحۃ‘‘۔ آپؐ ’’جوامع الکلم ہیں‘‘ مختصر جملے اور ان کے اندر مفہوم کے اتنے بڑے بڑے سمندر! کہ ایک حدیث کے لیے ایک ایک نشست نا کافی ہے۔ نصیحت اردو والا نہیں، یہ عربی کا لفظ ہے جس کا مفہوم ہے خیر خواہی۔ دین خیر خواہی اور اچھا چاہنے کا نام ہے۔ صحابہ نے پوچھا کہ نصیحۃ کیا ہے۔ آپؐ نے کیا عجیب فرمایا کہ سب سے پہلے تو اپنی نصیحہ، اپنی جان کی اپنے وجود کی خیر خواہی، اس کے بعد آپس میں ایک دوسرے کی خیر خواہی کرو اور پھر آپؐ نے فرمایا حکمرانوں کی خیر خواہی کرو۔ حکمرانوں کی خیر خواہی کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ ان کے غلط سلط اقدام کی تعریف کرتے جائو۔ خیر خواہی یہ ہے کہ جب کوئی کام اچھا کیا جارہا ہو تو یہ دیکھے بغیر کہ کون کررہا ہے اس کی تائید کی جائے اور اگر کام ضابطے، قاعدے کے خلاف ہورہا ہو تو یہ دیکھے بغیر کہ وہ میرا بھائی ہے یا میرا مخالف ہے اس کے خلاف آواز بھی اٹھائی جائے اور اس کا ہاتھ بھی پکڑا جائے۔ ہاتھ پکڑنے سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہر شخص قانون ہاتھ میں لینا شروع کردے۔ ہاتھ پکڑنے سے مراد یہ ہے کہ اپنے دائرے میں رہتے ہوئے جو کچھ کیا جاسکے وہ کیا جائے۔ اگر قوت سے مل کر یکجہتی کے ساتھ آواز بھی بلندکی جائے تو یہ انفرادی طور پر ہاتھ پکڑنے سے بہتر ہے۔ یہ امت کا وہ بنیادی تصور ہے جو آج ہمیں زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔

امت کے تصور کو آگے بڑھانے کے لیے، خدشات اور رکاوٹوں سے محفوظ کرنے کے لیے دوسری بات جو آپؐ نے فرمائی وہ یہ ہے کہ کسی کے بارے میں حسد نہ کیا جائے۔ انسان جب کسی کو نقصان پہنچانے پر آتا ہے تو اس کا سب سے بڑا سبب حسد ہوتا ہے اور جس کی کوئی حد نہیں ہے۔ حسد کے ساتھ بغض وعناد سے بھی پرہیز کیا جائے۔ آپؐ نے ان دونوں کی مما نعت کی۔ خیر خواہی کے ساتھ آپ نے دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ دوسروں کے لیے قربانی کا جذبہ رکھو، دوسروں کو کچھ دینے کا جذبہ رکھو۔ ایثار اور سخاوت قربانی کی بنیاد اور خیر خواہی کی عملی شکل ہے۔

امت کے تصور کو سمجھنے کے بعد اب آئیے موجودہ صورتحال کی طرف۔ اس میں ہماری پہلی آزمائش یہ ہے کہ ہرگز یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم سے کوئی ہزار کلو میٹر دور یہ کسی قوم یا کسی خطے کا مسئلہ ہے۔ نہیں۔ امت مسلمہ کی حیثیت سے فلسطین ہمارے وجود کا حصہ ہے اور ہم اس کے وجود کا حصہ ہیں۔ اس کی تکلیف ہماری تکلیف، اس کی پریشانی اور آزمائش ہماری پریشانی اور آزمائش ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے ’’اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا ان صبر کرنے والوں کو‘‘۔ (البقرہ: 155) آزمائش کا درجہ الگ الگ ہے، آزمائش کی چیزیں الگ الگ ہیں۔ اس کا تعلق کسی شخص کے نیک اور بد ہونے سے نہیں ہے۔ عمومی طور پر اس کا تعلق اللہ کی اس کائنات کے نظام سے ہے، یہ کائنات جن اصولوں پر کھڑی ہے ان اصولوں پر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اصولوں میں یہ بات شامل کی ہے کہ لوگوں کی آزمائش ہوگی۔ تاکہ ان کی اُخروی، دائمی، ہمیشہ کی زندگی کے بارے میں فیصلہ کیا جاسکے کہ وہ اصحاب الیمین ہیں یا اصحاب الیسار ہیں۔ آزمائش میں یہ سب چیزیں شامل ہیں۔

اگر ہم امت مسلمہ کے حوالے سے دیکھیں تو ہمارے لیے یہ کوئی نئی آزمائش نہیں ہے۔ چودہ ساڑھے چودہ سو سال کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ ایسا معاملہ پیش آرہا ہے۔ بالکل قریب کی اگر میں مثال دوں۔ مجددالف ثانی ؒ کے زمانے میں جو حالات تھے آج اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ حاکم وقت مطلق العنان، تمام طرح کی قوت طاقت اختیار اس کے قبضے میں کہ ذبیحہ بند کرادیا، شریعت اور شعار اسلام کا نفاذ ختم کردیا۔ اس صورتحال اور آج کی صورتحال میں تصور کیجیے، کتنا فرق ہے۔ 1857 کے واقعات اگر ہم اپنے سامنے رکھیں۔ مجدد صاحب کو گزرے ہوئے دوسو سال سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ آپ کی محنت سے اس پورے خطے میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ لیکن 1857 کے حالات کچھ اور ہی بیان کرتے ہیں کہ اگر ایک انگریز پانچ مسلمانوں کو اکٹھے دیکھ لیتا تھا اور اس کے لیے انہیں گرفتارکرنا مشکل ہوتا تھا تو وہ کہہ کر جاتا تھا میں اور نفری لینے جارہا ہوں تم یہیں بیٹھے رہنا تو مسلمانوں میں اتنی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ بھاگ سکیں۔ جرأت عمل اور جرأت کردار ان سے بالکل مفقود ہو چکی تھی۔

آج ہم خود کو کمزور سمجھیں تو یہ خوامخواہ کا احساس کمتری ہے۔ ہم اللہ کے کرم سے بہت اچھے حال میں ہیں۔ رسول اکرمؐ کی امت پر مختلف ادوار میں مختلف نوعیت کے حالات آئے ہیں۔ ایک طرح کا حال آج ہم پر موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں جلد اس سے نکالے لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہم پر اس طرح کے حالات کیوں آتے ہیں۔ کراچی میں سمندر تو سب نے دیکھا ہے۔ سمندر میں مدو جزر ہوتا ہے۔ جو چاند کی تاریخوں کے حساب سے بڑھتا اور کم ہوتا ہے۔ دن کے اوقات میں شام میں رات میں سورج اور چاند کے فرق سے سمندر میں مدو جزر ہوتا ہے۔ یہ کیوں ہوتا ہے۔ ایک اسموتھ اور ہموار سمندر بھی ہوسکتا تھا۔ مدوجزر اس لیے ہوتا ہے کہ زمین کے تین حصے پر موجود پانی جو انسانی، حیوانی اور نباتاتی حیات کے لیے ناگزیر ہے اس کو ذخیرہ کرنا مقصود تھا تاکہ وہ ضائع ہونے سے محفوظ رہ سکے۔ اس میں تلاطم پیدا کردیا گیا تاکہ پانی سڑنے سے بچ جائے۔ اس میں حرکت ہوتی رہے گی تو خرابیاں دور ہوتی رہیں گی۔ (جاری ہے)