قضیہ فلسطین اور امت کا مدوجزر (1)

660

گرامی قدر ڈاکٹر سید عزیزالرحمن سے سرشام ملاقات! شب کے آخری پہر تک راحت طاری رہی۔ دم رخصت ڈاکٹر صاحب نے اپنی نادر تصنیف ’’اسوئہ حسنہ، چند عملی پہلو‘‘ عنایت کردی تھی۔ اس کے مطالعہ میں کب وقت گزر گیا معلوم ہی نہیں ہوا۔ ڈاکٹر صاحب تقاریب میں یا پھر سفر میں رہتے ہیں لیکن تنہائی آباد کرنے کا سلیقہ بھی خوب جانتے ہیں۔ ’’حماس کا معرکہ جہاد۔۔ طوفان الاقصی‘‘ اپنی نئی کتاب پیش کرنے کے لیے ہم ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔

اگلے دن ریزہ ریزہ مصروفیات سے کچھ فرصت ملی تو پھر ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی سرشاری نے آلیا۔ واٹس اپ پر سرسراتی انگلیاں ڈاکٹر صاحب پر آکر رکیں تو دل پھر آباد ہوگیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی ایک تقریر ارسال کی تھی۔ اپنی شیریں اور توانا آواز میں ڈاکٹر صاحب فلسطین کے موضوع پر موتی رول رہے تھے۔ چند نکات کالم کی صورت آپ کی خدمت میں پیش ہیں:

قضیہ فلسطین پر بنیادی نکات کے حوالے سے تین اہم پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں جس کا ایک حصہ ہمارا ملک بھی ہے، فلسطین اور اہل فلسطین کی بربادی پر جہاں جذبات اور احساسات کی دنیا میں ایک تلاطم برپا ہے وہاں یہ سوال بھی ہمارے سامنے آرہا ہے کہ اپنی جگہ پر اپنی حیثیت میں، اپنی قدرت اور طاقت کے مطابق ہم کیا کرسکتے ہیں یا ہمیں کیا کرنا چا ہیے؟

ہم امت مسلمہ کا حصہ ہیں۔ لفظ امت ’’اُم‘‘ سے نکلا ہے۔ اُم جڑ کو کہتے ہیں، اساس کو بھی کہتے ہیں، ماں کو بھی کہتے ہیں۔ جس بنیاد پر ایک تناور درخت کھڑا ہوتا ہے وہ اُم کہلاتی ہے یعنی جڑ۔ جب درخت مضبوط، اونچا اور پھیلا ہوا ہوتا ہے، شاخوں، پھلوں اور پھولوں سے لدا ہوا ہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ درخت کی جڑیں مضبوط، زمین میں دور تک پیوست اور گہری ہیں۔ قرآن کریم میں لفظ امت کو متعدد مقام پر بیان کیا گیا ہے۔ چالیس سے زائد مقامات ہیں جہاں لفظ اُم یا اس سے متعلقہ کوئی لفظ قرآن کریم میں مذکور ہے۔ ان آیات میں موجود پیغام کو اگر اپنے سامنے رکھیں تو ہمیں دو تین باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ امت کا تعلق اور امت کا تصور یکجہتی، اتفاق اور اتحاد کا تصور ہے۔

امت کے ساتھ سیدنا ابراہیمؑ کا ذکر کرتے ہوئے قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے ’ان ابرھیم کان امۃ قانتاللہ حنیفا (الانعام 161): بے شک ابراہیم اپنی ذات میں ایک امت تھے اللہ کے اطاعت گزار‘‘ امت سے مراد ہے ’’امت مسلمہ‘‘ جس سے فرمانبرداری کا عنصر جڑا ہوا۔ اللہ کی فرمانبرداری اور رسول کریمؐ سے تعلق کو امت کے تصور سے علٰیحدہ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ گویا امت سے مراد ہے اللہ اور اس کے رسولؐ کی فرمانبرداری۔ ایسی فرمانبرداری کہ دنیا کی اک اک چیز سے کٹ کر اور یکسو ہوکر صرف اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے وابستگی، عملی اور علمی۔ حکم کو قبول کیا جائے اور پھر جتنی طاقت ہو اس پر عمل کیا جائے۔ یہی امت کا فرض ہے۔

امت مسلمہ کے تصور اور تعلق کو قرآن مجید میں سیدنا ابراہیمؑ کے ساتھ خاص طور پر بیان کیا گیا ہے۔ متعدد آیات ہیں۔ یہ تعلق وہ سوال ہمارے ذہنوں میں پیدا کرتا ہے جس سے ہمارے سامنے بہت سی چیزیں واضح ہوتی ہیں کہ آخر بطور امت سیدنا ابراہیم ؑ کے ساتھ ہمارا ایسا کیا تعلق ہے جس کی طرف قرآن کریم بار بار توجہ دلاتا ہے۔ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ حج کے جتنے مراسم ہیں، مناسک حج جن کو کہتے ہیں شاید سب ہی سیدنا ابراہیمؑ سے تعلق رکھتے ہیں۔ رسول اکرمؐ سیدنا ابراہیم ؑ کی نسل سے ہیں، ان معنوں میں آپؐ اسماعیلی ہیں۔ ایک فرق جو واضح طور پر ہمیں نظر آتا ہے وہ یہ کہ سیدنا ابراہیم ؑ سے پہلے اگرچہ بہت سے انبیاء کرام دنیا میں تشریف لائے، اپنی اپنی ذمے داریاں پوری کیں، جب وقت آیا تو دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن ان میں کسی بھی پیغمبر کے لیے عالمگیریت اور آفاقیت کا تصور نہیں بیان کیا گیا۔ کسی پیغمبر کے لیے یہ نہیں کہا گیا کہ وہ قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے مشعل ہدایت ہے۔ ان کا دورانیہ پوری کائنات پر محیط ہے۔ سیدنا ابراہیم ؑکے لیے یہ بات پہلی مرتبہ کہی گئی۔ تو امت کے تصور میں سیدنا ابراہیمؑ کے ساتھ نسبت کی وجہ سے ایک اور مفہوم شامل ہوجاتا ہے اور وہ مفہوم ہے عالمگیریت کا، آفاقیت کا، جامعیت کا۔

رسول اکرمؐ نے اپنی احادیث میں کئی انداز سے اس تصور کو بیان کیا ہے۔ رسالت مآبؐ کا فرمان ہے ’’مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں‘‘۔ آپؐ نے اس کی مثال بھی دی کہ ’’اگر کسی انسان کے وجود کے کسی ایک حصے میں کوئی تکلیف اور شکایت پیدا ہوتی ہے تو اس کا اثر پورا جسم قبول کرتا ہے۔ پوراجسم متاثر ہوتا ہے‘‘۔ انسانی جسم اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی عجیب آزمائش بھی ہے اور عجیب انعام بھی۔ اس جسم کا ہر ہر عضو صحیح کام کررہا ہو تو یہ اللہ کا کتنا بڑا احسان ہے ہمیں اندازہ نہیں ہوتا۔ خدا نخواستہ ہمارے وجود کا چھوٹا سا حصہ جو اپنی ذات میں کوئی خاص اثر بھی نہیں رکھتا یعنی ناخن، ہلکا سا بھی کھال یا گوشت میں دھنس جائے تو اس کی تکلیف پورا جسم محسوس کرے گا حتیٰ کہ تکلیف کی زیادتی ہو تو دماغ بھی مائوف ہونے لگتا ہے۔ یہی رسول کریمؐ کے فرمان کا حاصل ہے کہ اگر جسم میں ایک جگہ درد ہوتا ہے تو پورا وجود اس درد کو محسوس کرے گا۔ یہی امت کا تصور ہے۔ رسول کریمؐ نے امت کے اس تصور کو، اس احساس کی عملی شکل کو، عہد نبوی کے ہر دور میں زندہ رکھا۔ مکہ میں جب عالی مرتبتؐ شدید آزمائشوں میں گھرے ہوئے تھے۔ قریش مکہ کی جانب سے مشکلات اور تشدد کا طویل سلسلہ تھا جس کا آپ سامنا کررہے تھے۔ اس وقت بھی آپؐ نے امت کے تصور کو پروان چڑھایا اور اسے حقیقی شکل دی۔

ہم سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ایک لفظ ملتا ہے مواخات۔ مواخات کا طریقہ یہ تھا کہ آپؐ دو صحابہ کرام کو اکٹھا کرکے فر ماتے کہ آج سے یہ تمہارا بھائی ہے۔ اس سے پہلے ان صحابہ کرام کے درمیان کوئی خونی رشتہ نہیں تھا لیکن ان سارے رشتوں کو چھوڑ کر آپؐ نے ان کے درمیان اسلامی مواخات کا رشتہ قائم کیا۔ یہ مواخات دو مرتبہ ہوئی۔ سب سے پہلے عہد مکی میں۔ اس کا جو دورانیہ سیرت نگاروں نے بیان کیا ہے وہ غالباً ہجرت حبشہ کے قریب قریب ہے۔ نبوت کے پا نچویں چھٹے سال۔ مواخات کا تصور ’’امت‘‘ کا تصور تھا۔ ایک ایسا شخص جس کا مجھ سے کوئی خونی رشتہ نہیں اسے میرا بھائی بنادیا جائے، نہ صرف بھائی بلکہ جائداد میں، رشتوں میں، ناتوں میں، ذمے داریوں میں شریک۔ انسان کے لیے اس رشتے سے پیچھے ہٹنے کا کوئی راستہ نہیں رہتا۔ احساسات تبدیل ہو جاتے ہیں۔ احساس ذمہ داری کے ساتھ اب وہ نہ صرف اس رشتے کو قبول کرتا ہے بلکہ اس ذمے داری کو آگے بڑھانے کے لیے منصوبہ بندی بھی کرتا ہے۔ مدینہ طیبہ میں آنے کے بعد بھی آپؐ نے اس رشتے کو دوہرایا۔ فرق یہ تھا کہ مکہ میں جو مواخات تھی وہ اہل مکہ کے درمیان تھی اس میں وہ لوگ شامل تھے جو مکہ میں رہتے تھے لیکن مدینہ طیبہ میں بعداز ہجرت جو مواخات قائم ہوئی وہ ایک مہاجر اور ایک انصاری صحابی کے درمیان تھی۔

(جاری ہے)