الیکشن ولیکشن پیار ویار میں نہ مانوں رے

544

ہمارے یہاں افراتفری اور بدنظمی کا پہلے ہی دور دورہ ہے الیکشن کے انتظام اور بندوبست اسے ہزار گنا بڑھاوا دے دیتے ہیں۔ نسلی، لسانی، مذہبی اور سیاسی پارٹیوں کی وہ آپس کی لڑائیاں اور جھڑپیں جو پورے سال گلی محلوں، قصبوں اور شہروں میں چھوٹے چھوٹے میچوں کی صورت جاری رہتی ہیں الیکشن ان کا ملک گیر مقابلہ ہے۔
کسی بھی قوم میں خواتین ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ قوم اور خواتین دونوں مونث ہیں اس لیے انہیں پیچھے، ریڑھ کی ہڈی کے مقام پر رکھا جاتا ہے۔ تاہم الیکشن کے مثبت نتائج کے حصول کے لیے خواتین کو مردوں کے آگے رکھا جاتا ہے۔ باچا خان نے ایک مرتبہ ’’میرا قوم‘‘ کہا تھا۔ ویسے تو پٹھانوں کی تذکیر وتانیث کی غلطی پکڑنا بجائے خود غلطی ہے لیکن صحافی کہاں باز رہتے ہیں۔ صحافیوں نے انہیں مطلع کیا کہ حضور قوم مذکر نہیں مونث ہے۔ اس پر خان صاحب بولے ’’میں کسی مونث قوم کا لیڈر نہیں ہوں میرا قوم مذکر ہے‘‘ تاہم الیکشن کے وقت ہر جماعت کی ترجیح مذکر کم اور مونث زیادہ ہوتی ہیں۔ ہر جماعت مونث ووٹرز کی مونس نظر آنے کی تیزرفتار دوڑ میں شامل ہوتی ہے۔ جس لیڈر کو دیکھیں چاہے وہ کسی دینی جماعت کا ہی مہاتما ہو، مائوں، بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کو گھر کی چاردیواری سے زیادہ سے زیادہ باہر نکالنے کی کوشش میں ہوتا ہے۔
پہلے لوگ اتنے سادہ ہوتے تھے کہ فلموں میں مرنے کے سین دیکھ کر رونے لگتے تھے حالانکہ وہ ایکٹنگ ہوتی تھی۔ جب کہ اداکار کا مرنا نہیں مرنے کی ایکٹنگ ایسی ہوتی تھی کہ اسے دیکھ کر رویا جائے۔ الیکشن کے موقع پر اربوں روپے کے محلات سے نکل کر کروڑوں کی گاڑیوں میں بیٹھ کر جب لیڈر جلسہ گاہ میں غریبوں کے لیے مرنے کے دعوے کرتے ہیں تو حقیقت یہ ہے کہ انہیں مارنا چا ہیے۔ لیکن عوام تالیاں بجارہے ہوتے ہیں شاید اس بات پر کہ ان کی حکومتوں میں اب تک زندہ ہیں۔
ہمارے لیڈر دنیا کی ہر بات سمجھ لیتے ہیں سوائے عوام کی مشکلات اور مصائب کے حل کے۔ ہندئوں کو جو چیز سمجھ میں نہیں آتی اُسے دیوتا بنالیتے ہیں، ہمارے لیڈر اسے عوام گمان کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں تو شاعر، ادیب اور مولوی بھی اسے بڑا سمجھا جاتا ہے جس کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ کسی بے وقوف سے بے وقوف سے بھی پوچھیں بشرطیکہ وہ مفکر اور دانشور نہ ہوا سے حالیہ الیکشن میں نوازشریف کی کامیابی یقینی نظر آتی ہے۔ بعض دانشور ایسے بھی ہیں جنہیں کسی بھی شخص کی اچھائی بس یہی نظر آتی ہے کہ وہ نواز شریف کو پنجابی کہے اور اس کی تعریف نہ کرے۔ نواز شریف کو جس طرح ترلے منتیں کرکے اور مقدمات سے ریلیف کی یقین دہانی کرکے لایا گیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے الیکشن میں کامیابی کے لیے انہیں اتنی تگ ودو کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن خود نواز شریف کا یہ حال ہے کہ انہیں عوام کی سمجھ نہیں آرہی۔ وہ پختوا نخوا اور بلوچستان سے لے کر کراچی تک قبل از انتخابات ہی سیاسی جماعتوں سے اتحاد کرتے نظر آرہے ہیں۔
ایک لڑکا اپنے باپ سے جب بھی شادی کی خواہش کا اظہار کرتا باپ یہی کہتا ’’ابھی تم اتنے عاقل ودانا نہیں ہوئے ہوکہ تمہاری شادی کردی جائے‘‘ ایک دن تنگ آکر بیٹے نے کہا ’’آخر میں کب عاقل ودانا ہوں گا‘‘، ’’جب تم شادی کی خواہش کرنا چھوڑ دوگے‘‘ باپ نے جواب دیا۔ اگر یہی واحد کوالی فیکیشن تسلیم کی جائے تو پھر ہر مرد شادی کے بعد ہی شادی کے لیے کوالیفائی کرسکتا ہے۔ اقتدار کے لیے بھی یہی قابلیت شرط ہونی چا ہیے۔ کسی بھی فرد کو تب ہی اقتدار دیا جائے جب وہ اس کا خواہش مند اور طلب گار نہ ہو۔
مہدی حسن مرحوم نے ایک مرتبہ کہا تھا بھارت میں ہم دیوتا ہوتے ہیں جب کہ پا کستان میں میراثی۔ یہ حقیقت ہے۔ گلوکار شہزاد رائے کا کہنا ہے کہ ان کے گروپ کو ایک وڈّے زمیندار کے بیٹے کی شادی پر بھاری معاوضے کے عوض مدعو کیا گیا۔ بڑا کامیاب پروگرام رہا۔ خوب ناچ گانا ہوا۔ زمیندار صاحب فنکاروں کے آگے بچھے جارہے تھے۔ ان کی خاطر مدارات اور عزت میں کوئی کسر نہ اٹھارکھی۔ رات کو آرام کرنے کے انتظام بھی زبردست تھے۔ شہزاد رائے کی آنکھ صبح جلدی کھل گئی۔ وہ کھڑکی میں آکر کھڑے ہوگئے۔ دیکھا زمیندار صاحب نوکر سے کہہ رہے تھے ’’ویکھیں کنجراں دے ناشتے دا انتظام ٹھیک ٹھاک ہونا چاہیے‘‘۔ دنیا بھر میں الیکشن کی جو بھی وقعت ہو پاکستان میں الیکشن کی اتنی ہی عزت ہے۔ الیکشن عوام کی زندگی میں کوئی مثبت پیش رفت اور آسانی لے کر تو آتے نہیں سوائے وقتی ہنگاموں اور شور وغوغا کے۔
ہمارے ایک دوست ہیں وہ الیکشن کو اس سنجیدگی سے لیتے ہیں جیسے ہمارے یہاں واقعی الیکشن ہوتے ہیں۔ ووٹ اتنی ذمے داری سے ڈالتے ہیں جیسے و اقعی ووٹ ڈالنے سے فرق پڑتا ہو۔ حکومت کا ذکر اس احتیاط سے کرتے ہیں جیسے واقعی ہمارے یہاں حکومت ہوتی ہے۔ ایک اسّی نوّے برس کے بوڑھے نے ووٹ ڈالنے کے بعد الیکشن آفیسر سے پوچھا ’’کیا ہماری بیگم ووٹ ڈال گئیں‘‘ الیکشن آفیسر نے کہا ’’حیرت ہے آپ کو اپنی بیوی کی خبر نہیں کہ اس نے ووٹ ڈالا کہ نہیں ڈالا‘‘ بوڑھا بولا ’’بیٹا میری بیوی کو مرے بیس برس گزرچکے ہیں۔ ہر مرتبہ الیکشن کے موقع پر ووٹ ڈالنے آتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ مجھ سے پہلے ووٹ ڈال کر چلی گئی۔ اس مرتبہ میرا خیال تھا کہ شاید اس سے ملاقات ہو جائے لیکن لگتا ہے آج بھی وہ مجھ سے پہلے ووٹ ڈال کر چلی گئی‘‘۔
عرب ممالک میں جس کے ایک بیوی ہو اسے غریب سمجھا جاتا جب کہ دنیا بھر میں جہاں الیکشن نہ ہوں اسے عرب ملک سمجھا جاتا ہے۔ عرب چار بیویوں پر گزارا کررہے ہوں تب بھی انہیں غریب سمجھا جاتا ہے۔ الیکشن بھی جب تک چاروں سطح پر قومی سے لے کر صوبائی اسمبلی، بلدیاتی اور سینیٹ کی سطح تک نہ ہوں نامکمل تصور ہوتے ہیں۔ جمہوری جماعتوں میں ان ورکرز کو پیارویار سے دیکھا جاتا ہے جن کے انگوٹھوں پر ان مٹ سیاہی ہوجسے مٹاکر وہ بار بار ووٹ ڈال سکیں۔
بندہ کوئی سیاسی پارٹی جوائن کرلے تو اپنے نام کے ساتھ پارٹی لیڈر پارٹی کا نام اور جھنڈے کی تصویر اس طرح لگاتا ہے جیسے بیویاں اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگاتی ہیں۔ شوہر اور پارٹی بدلنے میں پریشانی یہ ہے کہ کارڈ دوبارہ چھپوانے پڑتے ہیں اسی لیے بعض لوگوں کے پاس ذاتی کارڈوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔
ایک صاحب کی بیوی اتنی خوبصورت تھی کہ اسے ساتھ لے کر گھومنا پھرنا کراچی میں کیش لے کر گھومنے کے برابر خطرناک تھا۔ الیکشن میں بغیر کیش گھومنا خطرناک ہوتا ہے۔ جسے دیکھو بری نظر سے دیکھتا ہے۔ الیکشن میں بغیر پیسے کے شرکت ایسی ہی ہے جسے انڈین فلم میں آئٹم سونگ نہ ہو۔ کامیابی مشکل بلکہ کسی حد تک ناممکن ہوتی ہے۔ الیکشن کے دن جو چیز سب سے بری سمجھی جاتی ہے وہ کنگلا امیدوار ہوتا ہے۔ کنگلا امیدوار الیکشن کے لیے مس فٹ ہے۔ بغیر بریانی، برگر کھائے اور جیب گرم کیے ووٹ کیسے کاسٹ کیا جاسکتا ہے؟