آئیے دشمن کو ضرب لگائیں

585

غزہ کے صحافی موت کو انتہائی قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ اپنے ملک کے حالات کو لمحہ لمحہ دنیا کو دکھا رہے ہیں۔ یہ لمحات اس قدر ہولناک ہیں کہ انہیں دیکھنا آسان نہیں، سانسیں رُک سی جاتی ہیں، دل دہل جاتے ہیں، سوچیں ویڈیو دیکھنے والوں کا یہ حال ہوتا ہے تو وہ جو ان لمحات کو اپنی آنکھوں سے اپنے سامنے ہوتے دیکھ رہے ہیں نہ صرف دیکھ رہے ہیں دنیا کو دکھا رہے ہیں ان کا جگر کیسا ہوگا؟ پھر ان کو خود موت کا سامنا ہے۔ صحافی شہید کردیے گئے ان کے گھر مسمار کردیے گئے اور کتنوں کو اسرائیلی فوج کتوں کی طرح ڈھونڈ رہی ہے۔ حال یہ ہے کہ اب وہ دکھا دکھا کر پریشان ہیں۔ غزہ کا ایک صحافی عالمی برادری سے سوال کرتا ہے ’’سمجھ میں نہیں آتا کہ دنیا کو کیا دکھائیں کہ یہ جنگ رُک جائے‘‘۔

ترکی کے اطلاعائی امور کے ڈائریکٹر فخر الدین آلون کہتے ہیں ’’عالمی برادری کو میڈیا تنظیموں کو غزہ میں اپنی ڈیوٹی پر موجود صحافیوں کی ہلاکت پر شدید ردعمل ظاہر کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ اسرائیل نے جس طرح بچوں، عورتوں، بزرگوں، صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں، اسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گزین کیمپوں میں معصوم لوگوں کو قتل کیا ہے، یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا عرج ہے۔ یعنی غزہ میں صحافت اور معلومات حاصل کرنے کے حق کو نظر انداز کیا جارہا ہے، پھر یہ کہ عالمی میڈیا اپنے صحافی برادری کے بارے میں حساس نظر نہیں آئے۔ وہ غزہ کی خبروں کی کوریج میں بھی ایسی خاص دلچسپی نہیں لیتے کیونکہ ان کی حکومتیں اسرائیل کے حق دفاع کا علم بلند کیے ہوئے ہیں۔ لہٰذا وہاں کے میڈیا کے ادارے بھی اسرائیل کے نقطہ نظر کی تائید کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اسرائیلی میڈیا کے اعتراف کے باوجود اس خبر کو اپنے ہاں شائع نہیں کیا یا بہت کم کیا کہ اسرائیلی ٹینکوں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں نے اپنے ہی لوگوں کو بیک فائر کرکے ہلاک کیا۔ الجزیرہ کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ ساٹھ صحافیوں کے اہل خانہ اور ان کے گھروں کو اسرائیلی فضائیہ ٹارگٹ کرکے نشانہ بناتی ہے تا کہ غزہ کے بہادر صحافی اپنے ملک میں ہونے والی تباہی اور قتل عام کو دنیا کے لوگوں تک نہ پہنچا سکیں۔ ان بہادر اور دلیر صحافیوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر بے لوث رپورٹنگ کی، جس سے دنیا کو غزہ میں ہونے والے اسرائیل کے خونیں کھیل کے بارے میں معلوم ہوا اور اس کے نتیجے میں اسرائیلی وزیراعظم کو مغربی ممالک کی اندھی حمایت میں کمی آئی۔ کئی ملکوں کے وزیراعظم جن میں اسپین، بلجیم اور دیگر یورپی ممالک شامل ہیں واضح طور پر کہا کہ اب بہت ہوچکا اسرائیل کو روکنا ہوگا۔

امریکا اور برطانیہ میں ووٹرز اپنے سیاستدانوں کو اسرائیل کی حمایت کرنے کی صورت میں دھمکی دے رہے کہ وہ اپنا ووٹ دوسری طرف استعمال کریں گے ان پر جو اسرائیل کے ظلم پر آواز اٹھا رہے ہیں۔ ویسے یہ بات پاکستان کے ووٹرز کو بھی بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے کہنی چاہیے جو غزہ پر ہونے والے ظلم پر منہ پر ٹیپ لگائے بیٹھے ہیں۔ ان کی فلسطین کے لیے کوئی عملی سرگرمی نظر نہیں آتی۔ ووٹرز کو ان سے پوچھنا چاہیے۔ سوال کرنا چاہیے۔ ویسے آج کا ووٹر بھی اتنا بیوقوف نہیں ہے وہ جانتا ہے کہ امریکا کی حمایت کا حصول اور اس کے ذریعے اقتدار میں آنے کی لگن انہیں فلسطین کی طرف سے آنکھیں اور منہ بند رکھنے پر آمادہ رکھتی ہے۔ اسرائیل نے غزہ میں ہونے والی نسل کشی کے حق میں پروپیگنڈا مہم پر کم از کم اکہتر لاکھ ڈالر کی رقم لگائی ہے۔ یہ وہ رقم ہے جو اسرائیل نے ایکس اور یوٹیوب پر اشتہارات پر خرچ کی ہے۔ 7 اکتوبر کے فوری بعد اسرائیل کی وزارت خارجہ یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا ایپس پر پچھتر سے زائد مختلف اشتہارات جاری کرچکی جو مغربی ممالک جیسے فرانس، جرمنی، امریکا اور برطانیہ کے ناظرین کے سامنے پیش کیے۔ مثال کے طور پر یہ افواہ کہ چالیس بچوں کے سر حماس کے جنگجوئوں نے قلم کیے۔ مغرب کے میڈیا نے تناسب ایسا رکھا کہ جو غزہ کے چار ہزار بچوں کے قتل عام کو درست ثابت کرنے کے لیے مناسب جواز بن جائے۔ نام نہاد آزاد مغربی میڈیا کا پول کھولنے والے بہادر صحافی شہادت کو گلے لگا رہے ہیں۔ اسرائیلی فضائیہ تاک تاک کر نشانہ بنارہی ہے کہ ان سے اس کے جھوٹ کا پول کھلنے کا اندیشہ ہے۔ مغرب جو اظہار آزادی کا الاپ کرتے نہیں تھکتا تھا اب سچ دنیا کے سامنے رکھنے والے صحافیوں کو گرفتار کرنے پر اُتر آیا ہے۔ جرمنی میں دو ترک صحافیوں کو گھروں سے گرفتار کرلیا گیا ان کے آلات صحافت (کیمرہ، کمپیوٹر، موبائل وغیرہ) ضبط کرلیے گئے۔ ترک اطلاعاتی امور کے ڈائریکٹر آلون نے جرمنی میں دو ترک صحافیوں کو گرفتار کرنے کی مذمت کی ہے۔

یہ بات تو صاف ہے کہ اسرائیل کے مغربی حامی یعنی امریکا، برطانیہ، جرمنی وغیرہ میڈیا کو دبائو میں رکھتے ہیں۔ وہ ان کی مرضی کی خبریں دے رہے ہیں لیکن اب سوشل میڈیا روایتی میڈیا کی جگہ لے رہا ہے۔ جہاں روایتی میڈیا کی حقائق کے خلاف رپورٹنگ کو کائونٹر کرنے والے ہم اور آپ جیسے عام لوگ موجود ہیں۔ غزہ کے صحافی پہلے بھی مارے جاتے رہے ہیں۔ کیا وہ ختم ہوں گے؟ نہیں وہ دو سے چار اور چار سے آٹھ ہوئے ہیں۔ اور ان کے پشت پناہ ساری دنیا کے لوگ بنے۔ غزہ کے لوگ جہاد میں مصروف ہیں، مسجد الاقصیٰ کی آزادی کے لیے جانیں لٹا رہے ہیں، ہم اس میں حصہ دار بن سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے واٹس ایپ، فیس بک، انسٹا گرام، ٹیوٹر اور دیگر اطلائی ذرائع استعمال کرکے۔ سیدنا جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ جنگ (خدعہ) ہوشیاری اور چالاکی کا نام ہے (یعنی دشمن کو دھوکا دینا اور اس کے ساتھ چالاکی سے کام لینا۔ جھوٹ اور دغا بازی نہیں)۔

صبر و تقویٰ ایمان و توکل مسلمانوں کی اصل اور ناقابل تسخیر طاقت ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہر زمانے اور ہر مقام کے مطابق مناسب اسلحہ اور سامان جنگ جمع کیا جائے، فنون جنگ کو حاصل کیا جائے، آج میڈیا وار کا دور ہے، سوشل میڈیا کے ذرائع سیکھنا اہم ہے، بلکہ اہم ترین ہے، آئیے دشمن کو اس ہی کے ہتھیار سے ضرب لگائیں۔