حماس کا پیغام

682

روز مرّہ زندگی میں ہر چیز کے اندر ملاوٹ معلوم کرنے کے لیے انسانوں نے مختلف آلات ایجاد کرلیے ہیں جس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ چیز کتنی خالص ہے اور کتنی ناخالص ہے۔ اور یہ انسانی فطرت بھی ہے کہ وہ ایسی چیزوں کو پسند بھی نہیں کرتا ہے کہ جو ملاوٹ سے آلودہ ہوں اگر کوئی خالص کا کہہ کر ناخالص چیز دے دے اور جب اس کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ فلاں شخص نے مجھے خالص کا کہہ کر ناخالص چیز دے دی ہے تواس شخص کا اعتبار بھی ہمارے دل سے جاتا رہتا ہے گویا ہم اس شخص سے نفرت کرنے لگتے ہیں وہ بے اعتبار قرار پاتا ہے۔
اپنے ربّ کے ساتھ وفاداری، خدا کے رسولؐ کے ساتھ وفاداری، خدا کی کتاب قرآن کے ساتھ وفاداری اور امت مسلمہ کے ساتھ وفاداری کس کے اندر کتنی ہے یہ معلوم کرنا آسان نہیں ہے کیونکہ یہ دل کا معاملہ ہے بظاہر دکھنے والی چیز نہیں ہے۔ کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کے بارے میں قطعی یہ معلوم نہیں کرسکتا کہ آیا دوسرا مسلمان مذکورہ بالا وفاداریوں کے معاملے میں کتنا خالص ہے اور کتنا نا خالص ہے۔ لیکن خدا نے کہا ہے کہ ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے خوف سے، بھوک سے، اموال اور جانوں کے گھاٹے سے (البقرہ) گویا یہ وہ حالات ہیں جو کہ مسلمانوں کے اندر خالص اور ناخالص مسلمانوں کا پتا لگانے کے آلات ہیں۔ موجودہ حالات کے تناظر میں آج دنیا میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت نے ایک ایسی لیبارٹری قائم کردی ہے جس کے ذریعے یہ معلوم ہورہا ہے کہ مسلمانوں میں کون خالص ایمان والے ہیں اور کون سے مسلمان ناخالص ہیں۔ آج دنیا میں یہ بھی معلوم ہورہا ہے کہ انسانوں میں بھی کون سے انسان خالص انسان ہیں اور کس انسان میں کتنا بھیڑیا پن ہے۔ حالات ہی وہ بھٹی ہے جس سے جب کوئی نکل کر سامنے آتا ہے تو وہ سونے کی طرح کھرا اور خالص بن کر آتا ہے۔ اور نا خالص بھٹی کے اند ر ہی آگ میں بھسم ہوکر رہ جاتا ہے۔
سیالکوٹ کے غزہ مارچ کے دوران امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب نے شرکاء مارچ سے خطاب میں حماس کا پیغام سنایا کہ حماس کے سربراہ نے کہا ہے کہ ہم آخری وقت اور آخری گولی تک اسرائیل سے لڑیں گے۔ اس وقت بلاشبہ حماس کے سربراہ اسماعیل ہینہ ہی اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کی جرأت کو سلام پیش کیا جائے کہ انہوں نے عالمی طاقتوں کے گماشتے اسرائیل سے ٹکر لی ہے اور ان قبلہ اوّل کے پاسبانوں نے ثابت قدمی دکھائی ہے۔ یقینا ایسے ہی لوگوں کے لیے علامہ اقبال نے کہاتھا کہ
اللہ کو ہے پامردی مومن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
عالمی تنظیم اسلامی (OIC) کا بار بار اجلاس ہورہا ہے مگر اب بھی کسی فیصلے کے بغیر ختم ہورہا ہے۔ یہ دیوہیکل بادشاہتیں اور عالمی استعمار کے ایجنٹ انہی سے اسرائیلی جارحیت بند کرانے کا مطالبہ کررہے ہیں جو درپردہ نہیں بلکہ کھل اسرائیل کی حمایت کررہے ہیں بلکہ اپنی ہی بنائی ہوئی اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الااقوامی قوانین کی دھجیاں اپنے ہاتھ سے بکھیر رہے ہیں اور اسرائیلی جارحیت کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ یہ تمام قوانین اس وقت یاد آتے ہیں جب مسلم دنیا کے علاوہ کسی پر جارحیت ہوتی ہے جہاں خون مسلم کی بات ہوتی ہے وہاں عالمی طاقتیں چپ سادھ لیتی ہیں اس وقت یہ اندھے، بہرے اور گونگے ہوجاتے ہیں۔ برسبیل تذکر بہت زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب روس افغانستان میں داخل ہوا تھا عام تاثر یہی تھا اور دنیا بھی یہی کہہ رہی تھی کہ روس سپر طاقت ہے اس کی فوج جہاں جاتی ہے وہاں سے نکلتی نہیں ہے۔ مگر جس جنگ کا آغاز دسمبر 1979 میں ہوا اور بڑے طمطراق سے ہوا وہ محض نو سال ایک مہینے کے بعد یہ جنگ روس کی شکست پر منتج ہوئی۔ اور روس اپنے زخم چاٹتا ہوا افغانستان سے فرار ہو گیا اس شکست کی وجہ سے اس کا جغرافیہ تک تبدیل ہوگیا۔ اس وقت ہٹ دھرم لوگوں نے کہا کہ اس وقت افغانستان کی پشت پر امریکا جیسی طاقت موجود تھی اس وجہ سے روس افغانستان میں شکست کھا گیا مگر جب امریکا اپنے حواریوں کے ساتھ 2002 میں افغانستان پر حملہ آور ہوا اب وہی ہٹ دھرم لوگ کہنے لگے کہ اب تو افغانستان کی خیر نہیں اب تو پورے افغانستان میں امریکا کا قبضہ ہوہی جائے گا مگر وقت نے ایک بار پھر ثابت کردیا
آج بھی ہوجو براہیم سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا
بیس سال کے بعد جنہیں وحشی اور دہشت گر کہتے تھے اور کسی صورت دہشت گردوں سے مذاکرات نہیں کریں گے، انہی دہشت گردوں سے مذاکرات کرکے افغانستان سے فرار ہونے پر مجبور ہوگئے انہی نہتے تعداد میں قلیل جدید ٹیکنالوجی سے نابلد طالبان نے وقت کی نام نہاد طاقت کو دھول چاٹنے پر مجبور کردیا۔ آج بھی بہت سے لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ محصور غزہ کے لوگ کیا اپنی مدافعت کریں گے ان کے پاس ہتھیار بھی نہیں ہیں۔ جبکہ اسرائیل کے پاس جدید ہتھیار اور عالمی طاقتوں کی مکمل حمایت موجود ہے۔ مگر اللہ فرماتاہے کہ ’’بے شک اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو لوگ اللہ کے راستے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں‘‘۔ (سورہ صف) تو کیا جن سے اللہ شدید محبت کرتا ہے ان کو ظالموں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں بے یار و مددگار چھوڑدے گا۔ تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا ہے ایک دن اسرائیل کو بھی غزہ سے فرار ہونا پڑے گا۔ جن ممالک کے بادشاہ اور سربراہ بڑی احتیاط سے اسرائیل کی مخالفت اور دھیمے انداز میں اہل غزہ کی حمایت کررہے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ زیادہ زور دار انداز میں اہل غزہ کی حمایت کر دیں اور امریکا بہادر ناراض ہوجائے۔ او آئی سی یا اٹھاون ممالک کے سربراہان کی حمایت کی غزہ والوں کو ضرورت نہیں اس جرم کی تو ان کو بہت بڑی قیمت چکانی پڑے گی۔ حماس کی مزاحمت بین الاقوامی قوانین اور آئین کے مطابق ہے حماس کے رہنما نے بالکل ٹھیک اپنا فیصلہ دیا ہے کہ آخری گولی اور آخری وقت تک ظالم صہیونی ریاست کا مقابلہ کریں گے۔