افغان باقی کوہسار باقی۔۔۔۔

661

معروف ماہر اقتصادیات محسن بشیر صاحب کے توسط سے برادر تنویر زبیری کی وال سے افغان مہاجرین اور پاکستانی عوام کے تعلق پر انتہائی پر اثر تحریر ملی، پڑھ کر احساس ہوا جیسے میرے دل کی ترجمانی بہت ہی خوبصورت الفاظ میں کر دی گئی ہو۔ زمانہ طالب علمی میں البدر و اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے پلیٹ فارم سے مجھ جیسے کئی خوش قسمت طلبہ کو بھی افغان و کشمیری پناہ گزینوں کی بھرپور خدمت کا موقع ملا۔ بلکہ ہم میں سے اکثر نے تو اپنی جانوں کے نذرانے صرف اور صرف اللہ کی رضا کی خاطر پیش کر کے ان پناہ گزینوں کی خدمت کی۔ ان پناہ گزینوں نے بھی اپنے درد چھپا کر ہمیں ہمیشہ شکر گزار نگاہوں ہی سے دیکھا۔ میرا یقین ہے کہ دونوں طرف کے حکمران کچھ بھی سوچیں کچھ بھی کریں دونوں طرف کی عوام ایک دوسرے کے لیے ہمیشہ چشم براہ ہی رہیں گے۔ برادر تنویر زبیری کو اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیشہ اپنے سایہ رحمت میں رکھے انہوں نے اپنے، ہمارے اور افغان بھائیوں کے دلوں کی ترجمانی کا حق ادا کر دیا۔
ورلڈ کپ کے میچ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم افغان ٹیم سے شکست کھا گئی۔ مین آف دی میچ کا اعزاز وصول کرنے والے کھلاڑی ’’زردان‘‘ نے اپنا ایوارڈ ان ڈی پورٹ ہونے والے افغان مہاجرین کے نام موسوم کردیا۔ جنہیں پاکستان سے زبردستی بے دخل کیا جارہا ہے۔ اور اس وقت ہمارے کئی نام نہاد دانشور افغانوں کو پاکستان سے دھکے دے کر نکالنے کے عمل کے سرخیل ہیں۔ افغان جنگ میں روسی افواج نے یوکرین سے کئی گنا زیادہ وسائل اور بری افواج میدان میں اتاریں۔ بستیوں کی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹنے کا شاید کسی کو اندازہ بھی نہ ہو۔ تاسف تو دور کی بات، اب تو کسی کو معلوم ہے یا نہیں۔۔۔ افغان روس جنگ میں تاریک راہوں میں مارے جانے والے افغانیوں کی تعداد بیس لاکھ کے قریب ہے۔ جبکہ ساٹھ لاکھ افغان اپنی جان۔ مال عزت۔ بیٹیوں اور مائوں کی عصمت اور آبرو کی حفاظت کے لیے ہمسایہ ممالک میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوئے۔ ایران میں انہیں سخت حفاظتی انتظامات میں ’’ریفیوجی کیمپس‘‘ میں رکھا گیا۔ اور حالات سازگار ہونے پر نوے فی صد مہاجرین کو باعزت گھر بجھوا دیا۔ باقی دنیا میں پناہ گزین اور مستقل بس جانے والے افغانیوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اس آغاز کے دور میں پاکستان افغان بھائیوں کی امداد و اعانت میں کسی سے پیچھے نہ تھا۔ کے پی کے کے مختلف علاقوں میں افغان خیمہ بستیاں آباد کی گئیں اور پاکستان تقریباً چالیس لاکھ نفوس کا میزبان بنا۔ پاکستان کو افغان بھائیوں کا ساتھ دینے کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ ایک لاکھ سے زائد پاکستانی بم دھماکوں اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں شہید ہوئے۔
اسی 80 کی دہائی کے اوائل تھے۔ تب میں میڈیکل کالج کا طالب علم تھا۔ ہم دوستوں نے جمعیت طلبہ کے زیر انتظام چندہ جمع کرنے کے کیمپ لگائے۔ لوگوں نے اپنی استطاعت سے زیادہ ایثار کیا۔ ہمارے گھروں کی خواتین نے اپنے زیور بیچ کر کھلے آسمان تلے بے یارومددگار افغانیوں کا ساتھ دیا۔ قوم نے ہجرت مدینہ میں انصار کی یاد تازہ کردی۔ مگر ہمارے تب کے رہنما اور عوام شدت جذبات میں کچھ زیادہ ہی بہہ گئے اور انہیں خانہ بستیوں سے نکال کر سارے ملک میں پھیلا دیا۔ جس کے نتیجے میں زیر زمین۔ جرائم پیشہ عناصر نے پورے ملک میں اسلحہ اور منشیات کا ایک جال بچھا دیا۔ اس مافیا کو ہمارے کرپٹ اہلکاروں کی سرپرستی حاصل ہوتی چلی گئی۔ 9/11 کے ساتھ ہجرت ثانی شروع ہوئی۔ امریکا اور ناٹو افواج کی افغانستان میں دراندازی سے لاکھوں نئے مہاجر پاکستان میں داخل ہوگئے۔ تب میں پیما (PIMA) کا صدر تھا۔ ہم لوگوں نے مسلم دنیا اور دیگر ممالک کی میڈیکل تنظیموں کے ساتھ ملکر افغان مہاجرین کے لیے طویل عرصہ تک طبی سہولتیں اور اسپتال قائم کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔
ان پناہ گزینوں کو یو این چارٹر کے تحت refugee status اور تحفظ حاصل ہے۔ مگر بدقسمتی سے مہاجرین کے روپ میں دہشت گردوں نے پاکستان میں اپنے بیرونی آقاؤں کے اشارے پر بے گناہ شہریوں اور محافظوں پر حملوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا۔ عام افغان شہری غیرت مند۔ جفاکش۔ اسلام اور امن پسند ہیں اور ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اب اچانک انہیں اور ان کے اہل و عیال کو بلاسبب نکالا جارہا ہے۔ ان میں سے اکثر کی تیسری نسل پاکستان میں موجود ہے اور اب گویا وہ ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکے یا assimilate ہو چکے ہیں۔ ان کو زبردستی بے دخل کرنا۔ دہشت گردی کے مسئلہ کا حل نہیں۔ سیاسی اور عسکری قیادت کو افغان حکومت کو اعتماد میں لے کر دہشت گردی کا قلع قمع اور واپسی repatriation کا انتظام کرنا چاہیے ورنہ حالات میں بہتری آنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
مجھے یاد ہے کہ شاید 1985 میں نیشنل جیوگرافک جیسے موقر میگزین کے سرورق پر ایک معصوم اور پری چہرہ افغان مہاجر بچی کی دکھ، یاسیت اور بے وطن ہونے کے خوف سے مزین شاہکار تصویر شائع ہوئی۔ میں تب ایشیائی اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری لو چی کن Lo Chi Kin کو ناصر باغ کے افغان مہاجر کیمپ کے دورے پر لے کر پشاور گیا تھا۔ ہماری وہاں نیشنل جیوگرافک کے فوٹو جرنلسٹ میک کری سے بھی ملاقات ہوئی۔ یہ تصویر اگلے شمارے کے سرورق پر شائع ہوئی اور دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ اسے مشرقی مونا لیزا کا خطاب دیا گیا۔ یہ ایک نامعلوم بچی کی تصویر تھی اور اس کا سراغ لگانے کی متعدد بار کوشش کی گئی۔ سیکڑوں متمول مسلم اور مغربی خاندان اس کو گود لینا چاہتے تھے۔ دو دہائیوں کے بعد McMurray اس کو ڈھونڈنے دوبارہ پشاور جاپہنچا۔ مگر اس کا سراغ نہ مل پایا۔ اس نے تمام افغان پناہ گزین کیمپس میں اس تصویر کی تشہیر کروائی اور اس کے چینل کی جانب سے اطلاع فراہم کرنے والے کے لیے خطیر رقم کا اعلان کیا گیا۔ بالآخر کئی ماہ کی رات دن کی کوششوں اور iris detection ٹیکنالوجی کی مدد سے اس کا کھوج لگا لیا گیا۔ محض بیس برس گزرنے کے بعد وہ عمر رسیدہ لگتی تھی۔ بوڑھا McCurry اس کو دیکھ کر رو پڑا۔ اپنی حالت زار پر۔ اس نے دری زبان میں اسے جواب دیا۔ ’’غریب الوطنی انسان کو شناخت کھودینے کی گہرائی میں اتار دیتی ہے۔ صرف شکستہ وجود رہ جاتا ہے۔ حسن و جمال۔ دل۔ دماغ اور شگفتگی تو اپنے وطن میں ہی رہ جاتی ہے‘‘۔ اس خاتون کا نام شربت گلے تھا۔ اس کو منظر عام پر آنے کے بعد ہمارے حکام نے 2015 میں اسے زبردستی deport کردیا۔ کہتے ہیں وہ اس تصویر اور پہچانے جانے سے خائف کہیں دور دراز غاروں کی مکین ہے یا مر کھپ چکی ہے۔ یہی مہاجرین کا المیہ ہے۔ چند گنے چنے دہشت گردوں کی سزا لاکھوں معصوم بچوں اور خواتین کو دینا نا انصافی ہے۔ ہم نے مہاجرین کو خود ہی منظم نہیں کیا۔ اب ایکا ایکی ان کو دستاویزات کے نہ ہونے کی بنیاد پر بغیر شنوائی نکالنا مناسب نہیں لگتا۔ اقوام متحدہ کا چارٹر ان کو پناہ گزین کا درجہ دیتا ہے۔ ہماری نسلوں نے ان پر جان چھڑکی۔ چھائوں بکھیری اور ان کی عزتوں پر پہرہ دیا۔ ان کے زخموں پر مجھ جیسے مسیحائوں نے خود مرہم رکھا۔ ہم کیسے ان جگر گوشوں کو آزمائش کی بھٹی کی بھٹی میں دھکیل رہے ہیں۔ اقبال نے کہا تھا۔
کڑکا سکندر بجلی کی مانند
تجھ کو خبر ہے اے مرگِ ناگاہ
نادر نے لوٹی دِلّی کی دولت
اک ضربِ شمشیر، افسانہ کوتاہ
افغان باقی، کوہسار باقی
الحکم للہ، الملک للہ
حاجت سے مجبور مردانِ آزاد
کرتی ہے حاجت شیروں کو رُوباہ
محروم خودی سے جس دم ہوا فقر
تو بھی شہنشاہ، میں بھی شہنشاہ
قوموں کی تقدیر وہ مردِ درویش
جس نے نہ ڈھونڈی سلطان کی درگاہ