کراچی: غیر معیاری ترازو اور باٹ کا استعمال یکسر نظر انداز

788

کراچی: شہر قائد میں عام استعمال کی اشیاء ضروریہ کے ناپ تول کا نظام مکمل طور پرکر غیرفعال ہوگیا ہے،شہریوں کو مہنگائی کے ساتھ ناپ تول میں بھی کمی کا سامان کرنا پڑرہا ہے، سندھ حکومت کا بےجا منافع خوری، ذخیرہ اندوزی، ناپ تول کے سامان کو چیک کرنے اور قیمتیں کنٹرول کرنے والا ادارہ  محکمہ بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز فعال نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، صارفین کےحقوق کے لئے کام کرنے والی کنزیومر ایسوسی ایشنز نےبھی خاموشی اختیارکر رکھی ہے۔

تفصیلات کے مطابق شہر قائد میں ناپ تول کی کمی اور غیر معیاری ترازو کے استعمال کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے، کراچی کےمرکزی بازاروں سمیت علاقے کی دیگر چھوٹی بڑی مارکیٹوں میں اکثر دوکانداروں، قصابوں، سبزی و فروٹ فروشوں اور خنچہ فروشوں کے پاس تصدیق شدہ ترازو اور باٹ موجود نہیں ہیں، آج کے جدید دور میں بھی دوکاندار الیکٹرونک یا محکمہ اوزان و پیمائش سے منظور شدہ اوزان اور باٹ استعمال کرنے کے بجائے کم وزن کے باٹ اور برسوں پرانے کنڈے استعمال کر کے شہریوں کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔

محکمہ اوزان و پیمائش کی منظور شدہ لوہے کے باٹ کے بجائے اینٹ اور پتھر کے خود ساخت باٹ، غیر تصدیق شدہ اور پرانے ترازو استعمال کئے جا رہے ہیں، سالہا سال سے محکمہ بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز کراچی کے بازاروں، مارکیٹوں اور علاقوں میں جاکر باٹ، کنڈا، ترازو، گز،میٹر ودیگر پیمانے چیک کرتی تھیں اور معمولی فیس کی وصولی پر ان کو باقاعدہ مہر لگا کر ایک سال کیلئے پاس کردیا جاتا تھا۔

محکمہ اوزان و پیمائش کی سستی لاپروائی کی وجہ سے  گزشتہ کئ برس  سے پیمانے اور اوزان وغیرہ چیک کرنے کا سلسلہ بند ہوچکا ہے، جس کی وجہ سے دکاندار غیر منظور شدہ کنڈے ،باٹ اور پیمانے کا سرعام استعمال کر رہے ہیں۔

وزن اور پیمانہ کم ہونے سے صارفین اور دکانداروں میں لڑائی جھگڑے کے واقعات معمول کا حصہ بن گئے ہیں، محکمہ اوزان و پیمائش کا شہریوں کو لوٹنے والے پھل و سبزی فروشوں اور دکانداروں کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز ہے۔

مہنگائی کے ہاتھوں پریشان شہری ان دکانداروں کے ہاتھوں لٹنے پر مجبور ہو  گئے ہیں، محکمے کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ناپ تول کے پیمانے کی معمول کی چیکنگ ایک خواب بن کر رہ گئی ہے،دکاندار چند سوروپے کا نذرانہ دے کر پورا سال غیر معیاری ناپ تول کے پیمانوں کااستعمال جاری رکھے ہوئے ہیں۔

سندھ حکومت کا ادارہ بیورو آف سپلائی اینڈ پرائس صرف نمائشی طور پر اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے،ادارہ کرپشن کا گڑ ھ بن کر رہے گیا ہے، بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز  کا ادارے کے ہونے کے باجود شہر میں پیٹرول پمپ پر صارفین کو کم پیٹرول کی فراہمی جاری ہے۔

کپڑا فیشن ایبل بازاروں میں اب بھی گزمیں فروخت ہورہا ہے، جبکہ میٹرکا نظام کا رائج ہے،اسی طرح تھوک میں دودھ کی فروخت لیٹرکے بجائے سیرمیں کی جاتی ہے،لیکن بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز کا ادارہ خاموش ہے، اوزان و پیمائش کے پیمانوں میں ہیرا پھیری کرکراچی کے شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہاہے۔

بتایا جاتا ہے کہ ناپ تول میں گڑ بڑ کے ساتھ ہر سطح پر صارفین منافع خوروں کے ہاتھوں مجبور ہو کہ اشیا کی خریداری کر رہے ہوتے ہیں،اس حوالے سے کراچی کے شہریوں کا کہنا ہے کہ دکانداروں نے اپنے اپنے پیمانے بنا رکھے ہیں اور کم وزن کی چیزیں فروخت کرکے لوگوں کو لوٹ رہے ہیں، ہم بڑے عرصے سےکئی ٹھیلے والوں کو تول کے لیے اینٹیں اور پتھر استعمال کرتے دیکھ رہے ہیں، اب تو یہ عمل اتنا عام ہے کہ کوئی اعتراض بھی نہیں کرتا ہے۔

جب دریافت کیا کہ وہ اس غیر قانونی عمل کی شکایت کیوں نہیں کرتے تو لوگوں کا خیال ہے کہ کراچی کے شہریوں کا بیورو کے نظام پر اعتماد نہیں رہا ہے،اس وجہ سے وہ ان کے شکایتی مرکز پر شکایات درج نہیں کراتے ہیں۔

شہریوں کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے صوبے سندھ خصوصا کراچی میں نظام حکومت اتنی خراب ہے کہ شکایت کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، ایک شہری کا کہنا تھا کی میں  نے دو سال پہلے مذکورہ محکمہ میں ایک شکایت درج کرائی تھی اس بات کو تین سال گزر گئے ہیں لیکن آج تک اس کا کوئی جواب نہیں موصول نہیں ہوا ہے۔

جبکہ دکانداروں کا کہنا ہے کہ متعلقہ محکمے کی جانب سے گزشتہ 5 سال سے کوئی چیکنگ کی گئی ہے اور نہ ہی باٹ وغیرہ پاس کئے گئے ہیں، اگر کوئی سرکای محکمہ چیک نہ کرے تو وہ کس سے پاس کروائیں گے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ کموڈٹیز ایکٹ 2005 کے تحت بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز اپنے طور پر کارروائی کرسکتا ہے،اس مقصد کے لیے ان کے پاس انسپیکٹرز مقرر ہیں لیکن عام طور پر یہ عملہ مارکیٹوں میں جاتا ہی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کا بیورو پر اعتماد نہیں رہا، بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز پہلے ایک خودمختار محکمہ تھا اور اب محکمہ زراعت کا حصہ ہے،ان کے پاس ہر قسم کی سہولیات دستیاب ہیں، لیکن اس کے افسر اور عملہ صرف تنخواہیں اور مراعات لیتا ہے، کارکردگی کچھ بھی نہیں ہے۔

دوسری جانب محکمہ بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز کی انتطامیہ کا کہنا ہے کہ ہم نے نیپا چورنگی گلشن اقبال کراچی میں اس مقصد کیلیے شکایتی مرکز قائم کر رکھا ہے،لیکن عوام وہاں شکایات درج نہیں کراتے ہیں، مذکورہ شکایتی مرکز گزشتہ 12 برس سے قائم ہے، لیکن مشکل سے مہینے میں ایک یا دو شکایات موصول ہوتی ہیں۔

مذکورہ شکایتی مرکز کے نمائندے کا کہنا ہے کہ مذکورہ سیل میں کوئی اکا دکا شکایت ہی درج کرائی جاتی ہے،ابھی تک جتنی بھی شکایات درج ہوئی ہیں وہ سبزی اور فروٹ کے زیادہ نرخوں پر بیچنے سے متعلق ہیں۔