سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ: حیات و خدمات

779

سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ بیسویں صدی کی ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے۔ ان کی بہت سی حیثیتیں ہیں: مفسر ِقرآن‘ سیرت نگار‘ دینی اسکالر‘ اسلامی نظامِ سیاست و معیشت اور اسلامی تہذیب و تمدن کے شارح‘ برعظیم کی ایک بڑی دینی و سیاسی تحریک کے موسس و قائد‘ ایک نام ور صحافی اور اعلیٰ پائے کے انشا پرداز۔ فکری اعتبار سے وہ گزشتہ صدی کے سب سے بڑے متکلم ِ اسلام تھے۔ بیسویں صدی میں علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو ایک ولولہ ٔ تازہ عطا کیا اور ان کے اندر اسلامی نشاتِ ثانیہ کی جوت جگائی۔ مولانا مودودیؒ نے اسی جذبے اور ولولے کو اپنی نثر کے ذریعے آگے بڑھایا اور علامہ اقبال کی شاعری کے اثرات کو سمیٹ کر احیاے دین کی ایک منظم تحریک کی بنیاد رکھی‘ پھر اپنے گہربار قلم کی قوت اور غیرمعمولی تنظیمی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اس تحریک کو پروان چڑھایا۔ اقبال اور مودودی دونوں پر پروفیسر رشید احمد صدیقی کی یہ بات صادق آتی ہے کہ ان کی تحریروں کو پڑھ کر دین سے تعلق ہی میں ا ضافہ نہیں ہوتا‘ اُردو سے محبت بھی بڑھ جاتی ہے۔ سید مودودیؒ اُردو زبان کے سب سے بڑے مصنف ہیں۔ ’’سب سے بڑے‘‘ ان معنوں میں کہ کثیرالتصانیف مصنف تو اور بھی ہیں مگر اُردو زبان کی کئی سو سالہ تاریخ میں انہیں سب سے زیادہ چھپنے والے مصنّف کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کا حلقہ ٔ قارئین‘ بلاشائبہ ٔ تردید‘ اُردو کے ہر مصنّف سے زیادہ ہے۔ اس اعتبار سے ہم انہیں اُردو کا مقبول ترین مصنّف بھی کہہ سکتے ہیں۔ سید مودودیؒ کی شخصیت‘ افکار و نظریات اور ان کی تحریک کے ہمہ گیر اثرات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کی کم از کم 43 زبانوں میں ان کی تحریروں کے ترجمے شائع ہوچکے ہیں۔ ان کے ذخیرئہ علمی کا مطالعہ‘ ایک بے حد وسیع اور بڑا موضوع ہے۔ دنیا کی مختلف جامعات میں ان پر ایم اے‘ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں‘ اور بعض پہلوؤں پر مزید تحقیقی کام ہو رہا ہے۔

حالات: سید ابو الاعلیٰ مودودی 25ستمبر 1903 کو حیدر آباد (دکن) کے شہر اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔آپ کے آبا و اجداد میں ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی گزرے تھے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودی کا خاندان انہی خواجہ مودود چشتی کے نام سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلاتا ہے۔ آپ کا گھرانہ ایک مکمل مذہبی گھرانہ تھا۔ مودودی نے ابتدائی دور کے پورے گیارہ برس اپنے والد کی نگرانی میں رہے اور گھر پر تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انہیں مدرسہ فرقانیہ اورنگ آباد کی آٹھویں جماعت میں براہِ راست داخل کیا گیا۔

خار زار صحافت میں: صحافت کا پیشہ اختیار کیا 15سال کی عمر میں اخبار ’’مدینہ‘‘ بجنور بھوپال میں شمولیت اختیار کی بعدازاں آپ نے جمعیت علمائے ہند کے ترجمان اخبار ’’مسلم‘‘ کی ادارت سنبھالی اخبار ’’مسلم‘‘ کی بندش کے بعد آپ نے بھوپال میں قیام کیا اور وسیع مطالعہ کا آغاز کیا تقریباً پانچ سال بعد جمعیت علماء ہند کے نئے اخبار ’’الجمعیۃ‘‘ دہلی کی ادارت سنبھالی اور چار سال تک اس اخبا رکی جان میں جان ڈالی پھر آپ الجمعیۃ کی ادارت سے مستعفی ہو گئے۔

پہلی تصنیف: جس زمانے میں سید مودودی ’’الجمعیۃ‘‘ کے مدیر تھے۔ ایک شخص سوامی شردھانند نے شدھی کی تحریک شروع کی جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو ہندو بنالیا جائے۔ چونکہ اس تحریک کی بنیاد نفرت، دشمنی اور تعصب پر تھی اور اس نے اپنی کتاب میں سیدنا محمدؐ کی توہین کی جس پر مسلمان نوجوان علم دین نے غیرت ایمانی میں آکر سوامی شردھانند کو قتل کر دیا۔ اس پر پورے ہندوستان میں ایک شور برپا ہو گیا۔ ہندو دین ِ اسلام پر حملے کرنے لگے اور علانیہ یہ کہا جانے لگا کہ اسلام تلوار اور تشدد کا مذہب ہے۔ انہی دنوں مولانا محمد علی جوہر نے جامع مسجد دہلی میں تقریر کی جس میں بڑی دردمندی کے ساتھ انہوں نے اس ضرورت کا اظہار کیا کہ کاش کوئی شخص اسلام کے مسئلہ جہاد کی پوری وضاحت کرے تاکہ اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں آج پھیلائی جا رہی ہیں وہ ختم ہوجائیں۔ اس پر سید مودودی نے الجہاد فی الاسلام کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس وقت سید مودودی کی عمر صرف 24 برس تھی۔ اس کتاب کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا تھا: ’’اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے اور میں ہر ذی علم آدمی کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے‘‘۔

ترجمان القرآن: ’’الجمعیۃ‘‘ کی ادارت اور اخبار نویسی چھوڑ کر سید مودودی حیدرآباد دکن چلے گئے۔ جہاں اپنے قیام کے زمانے میں انہوں نے مختلف کتابیں لکھیں اور 1932ء میں حیدرآباد سے رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ جاری کیا۔ 1935ء میں آپ نے ’’پردہ‘‘ کے نام سے ایک کتاب تحریر کی جس کا مقصد یورپ سے مرعوب ہوکر پردے پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دینا تھا۔ اس کے علاوہ ’’تنقیحات‘‘ اور ’’تفہیمات‘‘ کے مضامین لکھے جن کے ذریعے انہوں نے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں سے فرنگی تہذیب کی مرعوبیت ختم کردی۔ ترجمان القرآن کی ادارت میں آپ نے منفرد کتابیں تصنیف کیں اسلامی تہذیب اور اس کے اصول ’دینیات‘ اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر، تجدید واحیائے دین، جیسی کتب شامل ہیں۔

علامہ اقبال ؒ سے ملاقات: آپ نے 1937کو علامہ اقبال سے لاہور میں ملاقات کی۔ اسی زمانے میں تقریباً 1940 کو اسلامی نظام حکومت کا خاکہ تیار کرنے کے لیے مسلم لیگ نے علماء کی کمیٹی بنائی آپ بھی اس کمیٹی کے رکن نامزد ہوئے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال سید مودودی ؒ کی تحریروں سے بے حد متاثر تھے۔ بقول میاں محمد شفیع (مدیر ہفت روزہ اقدام)، علامہ موصوف ’’ترجمان القرآن‘‘ کے اُن مضامین کو پڑھوا کر سنتے تھے۔ اُن (مضامین) ہی سے متاثر ہوکر علامہ اقبال نے مولانا مودودی کو حیدرآباد دکن چھوڑ کر پنجاب آنے کی دعوت دی اور اسی دعوت پر مولانا 1938ء میں پنجاب آئے۔

جماعت اسلامی کا قیام: 1941 کو آپ نے ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار دیکھتے ہوئے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی اس کے پہلے امیر منتخب ہوئے۔ سید مودودی کی زندگی جہد مسلسل کا نام ہے آپ نے ہر محاذ پر جنگ لڑی اور کامیاب ہوئے سوشلزم، کیمونزم مغربی تہذیب، سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جہاد کیا اور فتح یاب ہوئے۔ انہوں نے ایک موقع پر تاریخی کلمات کہے۔ ایک وقت آئے گا جب کیمونزم خود ماسکو میں اپنے بچاؤ کے لیے پریشان ہوگا۔ سید مودودی کی پیش گوئی آج سچ ہوچکی ہے۔

مشکلات کے پہاڑ: 1950 سے 1960 تک آپ پر مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ پڑے آپ متعدد دفعہ جیل گئے۔ سید مودودی اور جماعت اسلامی نے ملک بھر میں قرارداد مقاصد کی منظوری کے لیے بھر پور مہم چلائی اور حکومت کو مجبور کیا جماعت اسلامی کامیاب ہوئی قرارداد مقاصد منظور ہوئی مطالبہ اسلامی دستور کے حق میں ملک کے کونے کونے میں آپ تشریف لے گئے۔ اسلامی دستور کی افادیت پر بڑے بڑے جلسہ عام کیے خطاب کیا سید مودودی کا یہ عشرہ آپ کی زندگی کا مشکل اور بھر پور نظر آتا ہے۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قراردلوانے میں آپ نے ’’عقیدہ ختم نبوت‘‘، ’’مسئلہ قادیانیت‘‘ جیسی کتابیں لکھی جس پر آپ کو عدالتوں کے ذریعے سزائے موت سنائی گئی۔ اس عشرے میں آپ کے اچھے ساتھی اور دوست ماچھی گوٹھ میں جماعت اسلامی کے سالانہ اجتماع میں نظر یاتی اختلافات کرتے ہوئے آپ کو چھوڑ گئے۔ تقریباً اسی عشرے میں ایوب خان نے اپنے عائلی قوانین نافذ کیے جس پر آپ کی قیادت میں جماعت اسلامی نے ایوب کے خلاف مہم چلائی اور ایوب خان نے جماعت اسلامی کو غیر قانونی قرار دلوایا جماعت کی قیادت کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔

ایوب خان کے دور میں محسوس ہوتا ہے اپوزیشن پارٹی صرف جماعت اسلامی تھی۔ وقت کا ڈکٹیٹر سید مودودی سے خوف زدہ تھا، آپ پر حکمرانوں نے غنڈوں کے ذریعے موچی دروازے پرقاتلانہ حملہ کرایا غنڈوں نے اس وقت گولی چلائی جب آپ تقریر کررہے تھے آپ کے ساتھیوں نے کہا کہ مولانا صاحب گولی چل گئی ہے۔ آپ نیچے بیٹھ جائیں آپ نے کہا کہ ’’کہ آج اگر میں بیٹھ گیا تو کھڑا کون رہے گا‘‘۔ ان کے یہ چند الفاظ تاریخ کاحصہ بن گئے۔

1950 سے 1960 تک یہ دہائی عظمت کے پیکر سید مودودی کے لیے آزمائشی تھی ان دس سال میں آپ نے چومکھی جنگ لڑی ہے، یہ زمانہ تھا کہ علمائے کرام آپ پر شدید تنقید کرتے تھے حکمران آئے روز ہتھکڑیاں لگا کر قیدو بند میں ڈال رہے تھے غیر مسلم قوتیں آپ کے دیے گئے نظریے کو جھٹلا رہے تھے آپ کے ساتھی آپ کو چھوڑ رہے تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنا صبر اور حکمت عطا کی کہ سب کا مقابلہ کیا۔

1960 سے 1970 اگلے عشرہ میں بھی ایوب خان آمریت کے خلاف جدوجہد نظر آتی ہے جماعت اسلامی کو عدالت عظمیٰ نے بحال کردیا آپ جیل سے باہر آئے جیل میں آپ نے جو عظیم کام کیا وہ قرآن پاک کی تفسیر لکھی دور حاضر کی سب سے ممتاز تفسیر جسے پڑھ کر غیر مسلم بھی ایمان کی وادیوں میں آجاتے ہیں۔ آپ اسی عشرے میں سعودی عرب تشریف لے گئے اُن مقامات مقدسہ کی زیارت کی جن کا قرآن میں ذکر آیا۔ اس عشرے میں آپ نے تحقیق کا کام زیادہ کیا ساری ساری رات جیل کی کوٹھری میں گزار دیتے صبح تک آپ مطالعہ اور تحقیق کا کام کرتے عموماً آپ صبح کی نماز پڑھ کر سوجاتے 24گھنٹوں میں صرف 4گھنٹے آپ نے آرا م کے لیے مختص کیے ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ لوگوں کوکیا معلوم مطالعہ انسان کے لیے کس قدر ضروری ہے اگر میرا بس چلے تو میں اپنی قبر میں بھی اینٹوں کی جگہ کتابیں رکھ لوں۔

جماعت کی قیادت سے دستبرداری: 1970 سے 1979 تک آپ کی صحت کمزور ہوگئی آپ اکثر فرماتے تھے کہ میں نے اپنے جسم کو اتنی مشقت میں ڈالا ہے کہ اب ایک ایک عضو مجھ سے انتقام لے رہا ہے۔ اس عشرہ میں آپ نے جماعت کی قیادت سے صحت کی کمزوری کی وجہ سے معذرت کرلی جماعت اسلامی کی قیادت میاں طفیل محمد کے سپرد کی۔ سید مودودی ؒ کے دو اہم کام جو امت کی رہنمائی کے لیے ہیں وہ یہ ہیں ’’تفہیم القرآن‘‘ اور ’’جماعت اسلامی‘‘ کا قیام یہ دونوں کام آپ کو رہتی دینا تک زندہ رکھیں گے۔

وفات: سید مودودی 1979 میں شدید علیل ہوگئے آپ علاج کے لیے امریکا روانہ ہوئے اور 22ستمبر 1979 شام پونے چھے بجے انتقال کرگئے۔ آپ کا جسد خاکی 25ستمبر لاہور لایا گیا یہ آپ کا یوم پیدائش ہے آپ کے الفاظ اس لحاظ سے پورے ہوئے26ستمبر کو قذافی اسٹیڈیم میں آپ کا جنازہ پڑھا گیا لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ 5۔ اے ذیلدار پارک جہاں آپ کا گھر ہے وہاں تدفین ہوئی۔ مولانا مودودی وہ دوسرے شخص تھے جن کی غائبانہ نماز جنازہ کعبہ میں ادا کی گئی، پہلے نبی کریمؐ کے دور میں حبشہ کے شاہ نجاشی تھے۔