دوسرے کی آنکھ کا تنکا

787

دنیا میں وہ کون سا انسان ہے جس میں کوئی عیب یا برائی نہ ہو لیکن عجیب بات یہ ہے کہ شاید ہی ایسا کوئی فرد ہو جسے اپنی برائی یا عیب دکھائی دیتے ہوں۔ ہم پر کوئی اذیت گزرے تو ہمیں بڑی تکلیف ہوتی ہے لیکن ویسا ہی دکھ یا تکلیف کسی اور پر گزرے تو اکثر اوقات وہ ہمیں بہانہ یا ڈراما لگتا ہے۔ اکثر گھروں میں نوکر بھی ہوتے ہیں اور ماسیاں بھی۔ کسی دن وہ نہ آسکیں اور اگلے دن وہ کوئی عذر پیش کریں تو کم ہی لوگ ایسے ہیں جو اس عذر کو درست سمجھیں۔ اپنے دکھ کو دکھ سمجھنا اور دوسروں کے غم پر خوش ہونا کوئی ایسی بات نہیں جس سے انکار کیا جا سکے۔ یہی حال ملوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کا ہے۔ ہم میں سے اکثر تو انہیں انسان ہی سمجھنے سے انکاری ہیں۔ ان کے ساتھ ہمارا سلوک ایسا ہی ہے جو ایک گاڑی میں جتے گدھے یا گھوڑے سے ہوتا ہے۔ جتنا وہ تیز دوڑتا ہے اتنا ہی اس پر چابک پر چابک برس رہے ہوتے ہیں۔
اگر کوئی فرد ہماری کسی کمی یا عیب کو دیکھ کر مسکرائے، ہنسے یا مذاق اُڑائے تو ہمارا خون کھول اٹھتا ہے لیکن ایسا ہی کچھ مخالف یا کسی اور کے ساتھ ہو رہا ہو، اس کی کسی کمی یا عیب کو دیکھ کر کوئی مسکرا رہا ہو یا اس کا کوئی نام رکھ رہا ہو تو بجائے کہنے والے کو روکنے ٹوکنے کے، ہم بھی اس کے ہمنوا بن جاتے ہیں اور مذاق اُڑانے شروع کر دیتے ہیں۔
میں جو کچھ بھی کہنا چاہتا ہوں اس کو سمجھانے کے لیے مشتاق احمد یوسفی کی ایک شوخ تحریر ’’بڑے لوگ بڑی باتیں‘‘ کے عنوان سے درج کرنا چاہوں گا۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب فرماتے ہیں: ’’میں آفس میں آکر ایک کپ چائے ضرور پیتا ہوں۔ اُس روز ابھی میں نے پہلا ہی گھونٹ پیا تھا کہ اطلاع ملی کوئی صاحب مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا بھجوا دیجیے۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور شلوار قمیص پہنے، گریبان کے بٹن کھولے، گلے میں کافی سارا ٹیلکم پاؤڈر لگائے، ہاتھوں میں مختلف قسم کی مُندریاں اور کانوں میں رِنگ پہنے ہوئے ایک نیم کالے صاحب اندر داخل ہوئے۔ سلام کیا اور سامنے بیٹھ گئے۔ میں نے سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا، وہ نہایت اطمینان سے بولے، میں بھی ایک مراثی ہوں۔ میں بوکھلا گیا، کک کیا مطلب۔ وہ تھوڑا قریب ہوئے اور بولے، مولا خوش رکھے، میں کافی دنوں سے آپ سے ملنا چاہ رہا تھا۔ سنا ہے آپ بھی میری طرح، میرا مطلب ہے آپ بھی لوگوں کو ہنساتے ہیں۔ میں نے جلدی سے کہا ہاں، لیکن میں میراثی نہیں ہوں۔ اچھی بات ہے، وہ اطمینان سے بولے، میں بھی کبھی کسی کو اپنی حقیقت نہیں بتاتا۔ میرا خون کھول اٹھا، عجیب آدمی ہو تم، تمہیں لگتا ہے میں جھوٹ بول رہا ہوں؟ یہ دیکھو میرا شناختی کارڈ، ہم یوسف زئی ہیں۔ وہ کارڈ دیکھتے ہی چہکا۔ مولا خوش رکھے، وہی بات نکلی ناں۔ میرا دل چاہا کہ اچھل کر اُس کی گردن دبوچ لوں۔ لیکن کم بخت کا ڈیل ڈول اچھا تھا اس لیے میں نے خود کو قابو میں رکھا اور آنے کا مقصد پوچھا۔
اُس نے محتاط نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھا، پھر ٹیبل پر آگے کو جھک کر بولا، مجھے نوکری چاہیے۔ میں پہلے چونکا، پھر غصے سے بھڑک اٹھا، یہ کوئی کمرشل تھیٹر کا دفتر نہیں ہے، تم نے کیسے سوچ لیا کہ یہاں مراثی بھرتی کیے جاتے ہیں۔ وہ کچھ دیر مجھے گھورتا رہا، پھر اپنی مندری گھماتے ہوئے بولا یہاں نہ سہی، کسی دوسرے دفتر میں ہی کام دلوا دیں۔ میں کوئی سخت جواب دینے ہی والا تھا کہ اچانک میرے ذہن میں ایک اچھوتا خیال آیا اور میں مسکرا اٹھا، آفس بوائے سے اُس کے لیے بھی چائے لانے کے لیے کہا اور خود اُٹھ کر اُس کے ساتھ والی کرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔ اُس کی آنکھوں میں الجھن سی اُتر آئی۔ میں نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا سنو، تمہیں بہت اچھی نوکری مل سکتی ہے، اگر تم مجھے ہنسا کے دکھا دو۔ وہ ہونقوں کی طرح میرا منہ دیکھنے لگا۔ میں نے اُس کی حالت کا مزا اٹھاتے ہوئے اُسے زور سے ہلایا، ہیلو ہوش کرو، بتاؤ، یہ چیلنج قبول ہے۔ اُس نے کچھ دیر مندری گھمائی اور نفی میں سر ہلا دیا۔ میں حیران رہ گیا، وہ مراثی ہونے کے باوجود مجھ جیسے اچھے خاصے معزز انسان سے ہار مان رہا تھا۔ میں نے وجہ پوچھی تو اُس نے عجیب سا جواب دیا، میں نے، لوگوں کو ہنسانا چھوڑ دیا ہے۔ میں اچھل پڑا، یہ کیسے ہو سکتا ہے، اُس نے لمبا سانس لیا اور بیزاری سے بولا، لوگ اب ہنسنا چھوڑ چکے ہیں۔ میں نے ایک زوردار قہقہہ لگایا، یہ تمہاری غلط فہمی ہے، دنیا آج بھی ہنستی ہے، مزاحیہ تحریریں پڑھتی ہے، مزاحیہ ڈرامے دیکھتی ہے، جگتیں پسند کرتی ہے۔ اُس نے اپنی مندری نکال کر دوسری انگلی میں پہنی اور اپنی بڑھی ہوئی شیو پر خارش کرتے ہوئے بولا، دنیا ہنستی نہیں، دوسروں کی ذلت پر خوش ہوتی ہے۔ میں نے پھر قہقہہ لگایا، وہ کیسے بھئی۔ اُس نے قمیص کی سائیڈ والی جیب سے سستے والے سگریٹ کی مسلی ہوئی ڈبی نکالی اور میری طرف اجازت طلب نظروں سے دیکھا، میں نے ایش ٹرے اُس کے سامنے رکھ دی۔ اُس نے شکریہ کہا اور سگریٹ سلگا کر گہرا کش لیا۔ میں اُس کے جواب کا منتظر تھا‘ تھوڑی دیر خاموشی رہی، پھر اُس کی آواز آئی، آپ کا منہ فلسطین کے لومڑ جیسا ہے۔ مجھے گویا ایک کرنٹ سا لگا اور میں کرسی سے پھسل گیا۔ میری رگ رگ میں طوفان بھر گیا۔ وہ میرے دفتر میں بیٹھ کر مجھے ہی لومڑ کہہ رہا تھا، بات تو سچ تھی مگر بات تھی رسوائی کی، میرا چہرہ سرخ ہو گیا، اس سے پہلے کہ میں اُس پر چائے کا گرم گرم کپ انڈیل دیتا، وہ جلدی سے بولا، آپ کا ایک جگری دوست شہزاد ہے ناں، میں پوری قوت سے چلایا، ہاں ہے، پھر۔ وہ فوراً بولا، اُس کی شکل بینکاک کے جمعدار جیسی ہے۔ میں نے بوکھلا کر اُس کا یہ جملہ سنا، کچھ دیر غور کیا اور پھر بے اختیار میری ہنسی چھوٹ گئی، میں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگیا۔ تین چار منٹ تک آفس میں میرے قہقہے گونجتے رہے، بڑی مشکل سے میں نے خود پر قابو پایا اور دانت نکالتے ہوئے کہا، شرم کرو، وہ میرا دوست ہے۔ میری بات سنتے ہی مراثی نے پوری سنجیدگی سے کہا، ایسی ہنسی آپ کو اپنے اوپر لگنے والی جگت پر کیوں نہیں آئی۔ میں یکدم چونک اٹھا‘ ساری بات میری سمجھ میں آ گئی تھی۔ قارئین! مجھے یقین ہے کہ آپ کو بھی ساری بات اچھی طرح سمجھ میں آ چکی ہوگی۔