مخلوط محافل سے اجتناب کریں

819

روز نامہ نوائے وقت میں غلام اکبر صاحب کا کالم میرے مطالعے میں آیا جو میں اپنے الفاظ میں نقل کر رہا ہوں۔ غلام اکبر صاحب لکھتے ہیں کہ: یہ 1959 کی بات ہے، میں انگریزی ادب میں آنرز کر رہا تھا۔ سندھ یونیورسٹی میں ہمارے شعبے کے سربراہ پروفیسر جمیل واسطی مرحوم تھے۔ ہماری کلاس میں 20 طلبہ تھے جن میں 6 طالبات شامل تھیں۔ ہماری کلاس نے پکنک کا ایک پروگرام بنایا لیکن اس میں یہ اختلاف ہو گیا کہ پکنک لڑکے اور لڑکیاں مل کر منائیں یا الگ الگ۔ بات جب واسطی صاحب تک پہنچی تو انہوں رائے دی کہ الگ الگ پکنک کرنا زیادہ مناسب ہے۔ مگر یہاں تو مخلوط تعلیم ہے، ایک لڑکی کی احتجاج کرتی آواز گونجی۔ واسطی صاحب نے جواب میں کہا کہ میں نے یہ کب کہا ہے کہ میں مخلوط تعلیم کو اچھا سمجھتا ہوں۔ آپ یہ کیسی باتیں کر رہی ہیں، زمانہ بہت ترقی کر چکا ہے، وہی لڑکی ایک مرتبہ پھر بولی۔ واسطی صاحب نے گھوم کر لڑکی کی جانب دیکھا جو ایک متمول اور فیشن ایبل گھرانے سے تعلق رکھتی تھی، پھر انہوں نے میری جانب دیکھا اور کہا کہ کیا تمہاری جیب میں چار آنے کا سکہ ہے۔ اس عجیب و غریب سوال پر میں نے چونک کر اپنی جیب کی تلاشی لینا شروع کر دی۔ چار آنے کا سکہ میری جیب میں تھا۔ میں اٹھ کر دروازے کی جانب مڑا ہی تھا کہ واسطی صاحب نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ واپس سیٹ پر بیٹھ جاؤ اور فرض کر لو کہ تم نے چار آنے کا سکہ باہر کوریڈور میں رکھ دیا ہے۔ پھر احتجاج کرنے والی لڑکی کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ جب ہم کلاس ختم کرکے باہر نکلیں گے تو کیا تمہیں یقین ہے کہ چار آنے کا سکہ ہمیں باہر کوریڈور میں پڑا ہوا مل جائے گا۔ لڑکی سوال سن کر بد حواس سی ہوگئی لیکن فوراً ہی سنبھل کر بولی کہ اگر کسی کی نظر اس پر پڑ گئی ہوگی تو وہ سکہ اس نے اٹھا لیا ہوگا۔ واسطی صاحب اس کا جواب سن کر مسکرائے اور کلاس کو مخاطب کر کے کہنے لگے کہ جن لوگوں پر چار آنے کے ایک سکے پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا وہ اپنی لڑکیوں کے معاملے میں کتنے سادہ ہیں جبکہ چار آنے کا سکہ لپ اسٹک بھی نہیں لگاتا۔ واسطی صاحب کی اس بات پر پوری کلاس کو سانپ سونگھ گیا۔ غلام اکبر صاحب کہتے ہیں کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں دقیانوسی سوچ رکھتا ہوں یا واسطی صاحب بہت زیادہ قدامت پسند تھے لیکن کیا اس بات میں سچ نہیں چھپے ہوئے؟۔

غلام اکبر صاحب کی اس چبھتی ہوئی تحریر پر میں کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا، صرف ایک اور حوالہ دیکر قارئین سے اجازت چاہوں گا۔ حوالہ دینے کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ جو بات غلام اکبر صاحب لوگوں کے ذہن میں ڈھکے چھپے الفاظ میں سمجھانا چاہتے ہیں اگر وہ کسی کی سمجھ میں نہ آ سکی ہو تو شاید ناسمجھ لوگوں کو سمجھ میں آ جائے۔ جس زمانے کی بات غلام اکبر صاحب بیان کر رہے ہیں، اس زمانے میں پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر اور شہروں کی ہر چھوٹی سے چھوٹی بستی میں ابلاغ کا سب سے بڑا ذریعہ محفلیں، مجلسیں، اجتماعات یا جلسے ہی ہوا کرتے تھے جس میں اس دور کے بڑے بڑے علما، فقہا، ادبا، دانشور اور محدثین خطابات کیا کرتے تھے۔ محرم اور ربیع الاول کے مہینے تو پورے پاکستان کی رونق ہی بڑھا دیا کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک جلسے میں مولانا محمد شفیع اوکاڑوی خطاب کر رہے تھے۔ ان کے خطاب کا محور خواتین کا حجاب تھا۔ جس طرح پروفیسر واسطی صاحب کا مقصد کالج کی بچیوں کو یہ احساس دلانا تھا کہ وہ مخلوط مجالس یا تفریح گاہوں میں شرکت سے گریز کیا کریں تاکہ وہ کسی زیادتی کا شکار نہ ہو جائیں یا کسی ایسے فعل کا ارتکاب نہ کر بیٹھیں جس سے ان کے خاندان کے لیے کوئی مصیبت کھڑی ہو جائے اسی طرح مولانا کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا کہ وہ خواتین کو اس بات کا احساس دلانا چاہتے تھے کہ ان کا بن سنور کر بے حجاب ہو کر گھر سے باہر نکلنا نہ صرف خلاف اسلام ہے بلکہ خود ان کی ذات کے لیے بھی کسی وقت ایک خوفناک شکل اختیار کر سکتا ہے۔ اس بات کو سمجھانے کے لیے وہ فرمانے لگے کہ لیموں بظاہر قدرت کا ایک پھل ہی ہے لیکن اس کے دیکھنے سے منہ میں رال آنے لگتی ہے۔ پھر اگر اس کو آنکھوں کے سامنے چھری سے کاٹا جائے تو کیفیت میں مزید ہیجان پیدا ہو جاتا ہے اور اگر کاٹنے کے بعد اس میں نمک بھی لگایا جائے تو پھر آپ کو مزید بتانے کی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ رال کو بہنے سے روکنا کتنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی معاملہ ایک خاتون کا بھی ہے۔ اگر وہ گھر میں ہے تو اس سے بہتر اس کے لیے کوئی مقام نہیں لیکن کوئی مجبوری اسے گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کر ہی رہی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ مکمل حجاب میں نکلے۔ حجاب کے باوجود بھی وہ بہر صورت ایک عورت ہی ہے لیکن جلد میں ملفوف لیموں کی طرح۔ بغیر حجاب کے ایسا ہی ہے جیسے کٹا ہوا لیموں اور اگر وہ بن سنور کے گلیوں بازاروں میں پھر رہی ہو تو پھر یقینا ایک ایسا لیموں ہے جس پر نمک کا چھڑکاؤ بھی کر دیا ہو۔

بے شک مردوں کے لیے بھی سخت ہدایت ہے کہ کچھ بھی ہو جائے ان کو اپنی نظریں بچا کر ہی چلنا ہے لیکن شیطان بھی ایک حقیقت ہے اس سے بھی کسی کو انکار نہیں کرنا چاہیے جس کے متعلق یہ فرما دیا ہے کہ وہ آپ (انسان) کے دائیں، بائیں، اوپر اور نیچے، غرض ہر چہار جانب سے حملہ آور ہو سکتا ہے۔ دعا ہے کہ ہر مسلمان اس بات کو اچھی طرح سمجھ لے تاکہ معاشرے کو ہر شیطانی حملے سے بچایا جا سکے (آمین)۔