چاند کی خاطر ضد نہیں کرتے

551

آج کل زورو شور سے خبر گرم ہے کہ بھارتی سٹلائٹ مشن، چندریان تھری کامیابی کے ساتھ چاند پہ قدم دھر چکا ہے مبارکبادوں کے سلسلے ہیں اور یقینا فطری ہیں مگر سوشل میڈیا خصوصاً پاکستانیوں کی حسرتوں بھری مبارکباد اور خود اذیتی سے بھرا پڑا ہے اپنے وطن کے خلائی سائنسدانوں اور سپارکو کو عار دلائی جارہی ہے کہ وہ کیوں ایک کھوکھلی مسابقت میں پیچھے رہ گئے اس وقت سارے خطہ ٔ زمین اور خصوصاً پاک وطن خطرات اور زمینی مسائل کے نرغے میں ہے پانی اور بجلی مصنوعی قلتوں اور بھاری بلوں نے غریب ہی نہیں مڈل کلاس عوام کو بھی دن میں وہ تارے دکھا دیے کہ زمین پہ قدم جمانا مشکل ہوگیا ایسے میں وطن کو کوسنا چاند پہ تھوکنے کے برابر ہے اور چاند کا تھوکا منہ پہ آتا ہے (زمین پہ موجود کشش ثقل کا بھی یہی نتیجہ ہوسکتا ہے)۔ واقعی ہم سب، کے الیکٹرک کے بموں کی زد میں ہیں پٹرول کی قیمتیں پہلے ہی آسمان سے باتیں کررہی ہیں اور زمین پہ ابلتے گٹر، ٹوٹی سڑکیں کھلے قاتل مین ہول ہمیں آسمانی چاند کو کیسے یادرہنے دے سکتے ہیں۔ مگر اس سچ سے بھی انکار نہیں کہ انسان کا چاند سے رشتہ ہوش سنبھالتے سے جڑا ہوا ہے خصوصاً ہماری تہذیب میں جانے کتنے گیت اور کہانیاں اس پہ رقم ہوچکے ہیں بہت اوائل عمری سے ہر ماں بچے کو لوری سناتی رہی ہے۔ چندا ماما دور کے… یا چندا کے ہنڈولے میں اڑن کھٹولے میں ہر ماں اپنے بچے کو چاند کہتی آئی ہے شاعری میں محبوب کے چہرے کو چاند سے تشبیہ دی جاتی ہے گویا چاند زمین والوں کے لیے حس وجمال کا استعارہ ہے۔ علامہ اقبال نے بھی اس پہ نظمیں کہی ہیں
تیرے ویرانے سے کوسوں دور ہے میرا وطن
ہے مگر دریائے دل تیری کشش سے موجزن
گویا چاند کی ساری کشش دور ہی سے اچھی ہے درحقیقت وہ تو ایک ویرانہ ہے جو سورج کی تمازت سے روشن ہوجاتا ہے۔
واقعی زمین ابتدائے آفرینش سے انسان کا جائے قرار ہے اس کی تہوں میں خدا نے زندگی کے کتنے سامان رکھے ہیں سبزیاں پھل اناج سونا چاندی ہیرے موتی، معدنیات اور تیل کے بیش بہا ذخائر جس نے مواصلات اور ذرائع آمد و رفت کی اعلیٰ سہولتیں ہمیں عطا کرکے فاصلے سمیٹ دیے ہیں سمندر دریا پہاڑ ریگستان کیا کیا روپ ہیں بخششوں کے اور پھر بالآخر ہمیں اسی زمین میں جانا ہے یہ کرۂ ارض حیات اور بعد از حیات انسان کی گواہ ہے۔ مگر نجانے زمین کے باسیوں کو ویرانے میں پہنچنا کیسی کامیابی لگتی ہے مجھے اس موقع پہ اردو کے معروف افسانہ نگار کرشن چندر کے افسانے کا ایک ڈائیلاگ یاد آرہا ہے۔ ’’ان سائنسدانوں کوکیا ہوگیا ہے کہ بنجر چاند پہ جانے کے لیے راکٹ بناتے ہیں،گھروں کے صحن میں روپیے کے درخت نہیں لگاتے‘‘۔ واقعی انسان زمین کا رہائشی ہے اسے اس سے اتنا کچھ ملتا ہے کہ اس کے دکھوں کو دور کرنا اس پہ فرض ہے نصف صدی سے بھی پہلے جب امریکا نے وہاں پہلا قدم دھرا تب سے آج تک آبادکاری کا کوئی قدم نہیں اٹھا کیونکہ وہاں کی آب وہوا اس قابل نہیں وہاں نہ پانی ہے نہ سبزہ مگر پھر بھی وہاں جانے والے پہلے انسان نیل آرم اسٹرانگ نے اذان کی آواز سنی تھی یقینا وہاں کی وارث کوئی۔ مخفی مخلوق ہوگی جب ہی وہاں بھارتی سائنسدانوں نے وہاں پانی کے مالیکیولز بھی دیکھے ہیں۔ زمین پہ قبضہ گیر اجارہ داروں نے رزق اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے ذریعے اس خطے کو جہنم بنادیا ہے تو کیا یہ ترقی ہے جدت ہے یا فرار کی راہیں۔ بھارت میں اشیائے صرف کی قیمتیں یہاں کے مقابل کم سہی مگر غریب اور نچلی ذات کے لوگ زمین سے لگ گئے ہیں گھسٹ رہے ہیں گویا جیون ایک سزا ہے جسے وہ کاٹ رہے ہیں ذلت بھوک اور دہشت کے عذابوں نے انہیں جانور بنادیا ہے۔ اگر سارا سرمایہ ان کے دکھوں کو دور کرنے میں لگاکر انہیں بھی انسانی حقوق دے دیے جاتے تو زمین چاند سے زیادہ روشن ہوجاتی۔
خصوصاً اپنی پاک سر زمین جو لٹیروں ڈاکوؤں اورعیاش اجارہ داروں کی وجہ سے جہنم بنی ہوئی ہے۔ حالانکہ اس کے جھنڈے میں ہریالی کارنگ ہے امن کی سفیدی ہے۔ مگر زمین کے اپنے چاند آج بھی گہن میں ہیں جبیں کے داغ کیا دھلیں سیاہیاں کرن میں ہیں: یہ جبیں کے داغ دراصل زمیں کے داغ ہیں زمین کا بوجھ ہیں بھوک افلاس دہشت اور جہالت کے دھبے ہیں پھر پاکستانیوں کو اتنی حسرت کیوں ہے چاند پہ نارسائی کی؟ اور بھارت سے موازنے کرکے خود کی تذلیل کرنے سے حاصل کیا؟۔ ایک ویرانہ جو دور سے عکس خورشید کے سبب روشن نظرآتا ہے دور ہی سے استعارۂ جمال رہے تو اچھا ہے چاند کی ضد بچوں کا کام ہے۔ اسی بھارت میں ایک مغل شہزادے چاند سے کھیلنے کی خواہش میں آسمان سر پہ اٹھالیا تھا۔ انوکھا لاڈلا کسی طرح نہ مانا تو ایک دانا حکیم نے چودھویں شب کو محل کے صحن میں پانی سے بھرا طشت رکھوا دیا تاکہ اس میں چاند کا عکس نظر آئے اور شہزادہ اس میں ہاتھ ڈال کر کھیلتا رہے ڈھونڈتا رہے یہ طفل تسلی تھی بہرحال چندا ماما دور ہی سے اچھے لگتے ہیں
اور ہم وطنوں کو زمین کے دکھ سے زمین کی بے شمار نعمتیں یاد رکھنی چاہیں اور ہم تو اس سرکارؐ کی امت سے ہیں جنہوں نے اسی زمین سے اپنی انگشت مبارک کے اک اشارے سے چاند کو دونیم کردیا تھا (باذن اللہ) یہ معجزہ دیکھ کر نہ ماننے والے نہیں مانے اور دور کالے کوسوں اسی بھارت کی ریاست مالی بار کے راجا نے اپنی چھت پہ ٹہلتے ہوئے یہ منظر دیکھا اور اس حق کی تلاش میں راج پاٹ چھوڑ کر طویل اور کٹھن سفر پہ نکل پڑا۔ اس دور میں سفر بہت پرخطر تھے فاصلے بے اندازہ، مگر تلاش حق کو سلام ہے۔ راجا نور نبوت سے فیضیاب ہوکر مشرف بہ اسلام ہوا یہ بھارت کے اکلوتے صحابی سیدنا تاج الدین کہلائے۔ ہند کے لوگوں کے لیے یہ اعزاز کم ہے کیا؟ اور معجزۂ نور کا اظہار یہی بس نہیں ہوکر رہ گیا سید البشر سیدنا محمدؐ سات آسمانوں سے ہوائے نوریوں کے سردار جبرئیل امین ؑسات آسمانوں کے بعد رک گئے کہ پرجل جائیں گے اور سرکار مہمان اعزازی بن کر آگے بڑھ گئے بشریت کا نور علی نور ہے یہ، پھر چاند کیا شے ہے!
جو اس تک رسائی کو کمال اور کامیابی کانشان قرار دیا جائے لہٰذا ہمیں اپنی زمین کی فکر کرنی ہے اس سے وفا نبھانی ہے۔ کہ جو یہاں کے نہیں وہ کہیں کے نہیں۔
اس کی گواہی کو معتبر کرنا ہے جس کی تہہ میں کتنے ماہتاب چھپ گئے اور اس پہ کتنے چاند گہن زدہ ہیں اس کے ماتھے پہ کتنے دھبے ہیں زندگی کے ہر رنگ سے بھرپور، رزق سے مالامال زمیں اس کے باسیوں پہ کیوں تنگ کردی گئی ہے؟ چاند تک جانے کے تمنائی اس کی فکرکریں۔ اور خالق ارض و سما و مہرو ماہ سے اقبال کے لفظوں میں داغ محبت مانگ لیں جو اس دور کی ظلمت میں چاند کو شرما دے اس لیے کہ
چاند کسی کا ہو نہیں سکتا، چاند کسی کا ہوتا ہے؟
چاند کی خاطر ضد نہیں کرتے اے میرے اچھے انشاء چاند