سانحہ بٹگرام

594

مورخہ 22؍ اگست 2023ء بروز منگل ضلع بٹگرام کے ایک دہی علاقہ کے طلبہ و اساتذہ ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ پر واقع اپنے اسکول جاتے ہوئے لفٹ کی رسیاں ٹوٹنے سے دو ہزار فٹ کی اونچائی پر پھنس گئے۔ جس جس علاقے میں یہ پنگھوڑا نما لفٹیں استعمال ہوتی ہیں وہاں کے لوگ ایسے حادثات کا سد باب خود ہی بڑے احسن طریقہ سے سر انجام دے لیا کرتے ہیں۔ ان کی زندگی بہت ہی سخت ہے، مگر اقبال کے یہ مرد کوہستان بڑے جفا کش ہیں اپنی مصیبتوں پر رونے دھونے کے بجائے مصائب سے نبرد آزما ہونے کو ترجیح دیتے ہیں اور کبھی ہار نہیں مانتے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیکنالوجی سے لیس قوتیں جب رات کے اندھیرے میں بے بس نظر آئیں تو ان مرد کوہستانیوں نے ہمت و جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھرتی کی لاج رکھ لی ورنہ کچھ عاقبت نااندیش سوشل میڈیا پر بہت دور نکل گئے تھے۔ اس واقع کے حوالے سے برادر محترم محسن بشیر کی وال سے بٹ گرام کے مقامی صحافی سید امتیاز شیرازی کی تحریر ملی ہے جو تمام صورتحال کی صحیح عکاسی کر رہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:-

میرا تعلق چونکہ بٹگرام سے ہے اس لیے آج کے واقعے کا اصل منظرنامہ آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں، الائی ضلع بٹگرام کی تحصیل ہے جس کی آبادی لاکھوں افراد پر مشتمل ہے، یہ ایک دور افتادہ اور پہاڑی علاقہ ہے جو کہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے لیکن زندگی کی سہولتیں خاص کر سڑکیں اور پل نہ ہونے کی بنا پر یہاں کے باشندے دو پہاڑوں کے درمیان اس طرح کے چیئر لفٹ لگا کر اس کے ذریعے سفر کے ساتھ ساتھ اپنی ضروریات کی چیزیں سپلائی کرتے ہیں، اس سے دو فائدے ہوتے ہیں ایک گھنٹوں کا سفر چند منٹوں میں کٹ جاتا ہے دوسرا جب بارش کے وقت ندیوں میں طغیانی کی وجہ سے زمینی راستے بند ہوجاتے ہیں تو لوگ انہی چیئر لفٹ کے ذریعے آمد و رفت کرتے ہیں۔

آج صبح سات بجے جب معمول کے مطابق یہ بچے اپنے استاد کے ساتھ چیئر لفٹ پر ایک پہاڑ سے دوسری پہاڑ پر موجود اپنے اسکول جارہے تھے تو بدقسمتی سے چیئر لفٹ کی دو رسیاں ایک سات ٹوٹ گئیں اور چیئر لفٹ درمیان میں پھنس کر رہ گئی، نیچے تقریباً ایک ہزار فٹ کی گہرائی تھی، بھلا ہو مقامی افراد اور صحافیوں کا جنہوں نے ان پھنسے ہوئے افراد کے بچاؤ کے لیے ایک ساتھ بھرپور آواز اٹھائی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی، اس سے پہلے بھی ایسے واقعات یہاں رونما ہوچکے ہیں جس میں ہمیشہ مقامی لوگ ہی اپنی مدد آپ کے تحت پھنسے ہوئے لوگوں کو بچا لیتے ہیں لیکن اس بار سوشل میڈیا اور مقامی صحافیوں نے ہیلی کاپٹر کے لیے بھرپور مہم چلائی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس طرح ان پھنسے ہوئے افراد کی جانیں نہ صرف فوری بلکہ باآسانی بچائی جاسکیں گی، میڈیا اور سوشل میڈیا پر زبردست مہم اور مقامی سیاسی افراد کی کوششوں سے خدا خدا کرکے آخرکار چار گھنٹے بعد تین ریسکیو ہیلی کاپٹرز موقع پر پہنچ گئے، پہلی مرتبہ کوشش کرنے پر ریسکیو ٹیم کو کچھ خاص کامیابی نہ مل سکی اور وہ پھنسے ہوئے لوگوں کو یہ کہہ کر چھوڑ گئے کہ یہ ان کے بس کی بات نہیں وہ بالاکوٹ سے دوسری ٹیم لیکر آئیں گے جو کہ اس کام میں ماہر ہیں، کئی گھنٹے گزرنے کے بعد جب دوسری ٹیم بزریعہ ہیلی کاپٹر پہنچی تو ان کی مہارت بھی دھری کی دھری رہ گئی بڑی کوششوں کے بعد وہ بمشکل ایک ہی بندے کو ریسکیو کرنے میں کامیاب ہوئے تھے کہ اتنے میں شام ہوگئی اور اندھیرا چھا گیا، یہ کہہ کر فضائی آپریشن روک دیا گیا کہ اب مزید بذریعہ ہیلی کاپٹر ان لوگوں کو بچایا نہیں کیا جاسکتا اور یوں دن بھر چکر کاٹنے والے ہیلی کاپٹرز سات افراد کو موت کی منہ میں چھوڑ کر واپس چلے گئے۔

مقامی افراد جن میں اس کام کے ماہر موجود تھے واقع رونما ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی اپنے ساز و سامان سمیت موقع پر پہنچ چکے تھے اور بار بار انتظامیہ سے مطالبہ کررہے تھے کہ وہ باآسانی ان افراد کو ریسکیو کرسکتے ہیں لہٰذا ان کو اجازت دی جائے لیکن انتظامیہ اور پھنسے ہوئے افراد کے اہل خانہ کے نزدیک ایسا کرنا زیادہ رسکی تھا جس سے نقصان کا خدشہ تھا اس لیے انہوں نے ان افراد کو اجازت نہیں دی۔

جب ہیلی کاپٹرز واپس چلے گئے تو پھنسے ہوئے افراد کے اہل خانہ اور انتظامیہ کے پاس کوئی دوسرا آپشن باقی نہیں تھا لہٰذا انہوں نے مقامی نوجوانوں کو اجازت دی کہ وہ مزید پھنسے ہوئے لوگوں کو ریسکیو کریں اور پھر انہوں نے اپنی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے ریسکیو آپریشن شروع کیا وہ رسی کے ذریعے چیئر لفٹ تک پہنچے اور وہاں سے ایک ایک کرے باقی افراد کو محض تین گھنٹوں میں بچانے میں کامیابی حاصل کی۔ (الحمدللہ)

اب اگر کوئی ٹی وی پر بیٹھ کر آپ کو یہ بھاشن دے کہ ہم نے انتھک محنت، جذبہ حب الوطنی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بروئے کار ان افراد کی جانیں بچائی ہیں تو ان پر ایک عدد لعنت بھیج کر آگے بڑھیں، اور ہاں اگر خدانخواستہ آئندہ کسی جگہ ایسا حادثہ پیش آئے تو ہیلی کاپٹرز کا انتظار کیے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت پھنسے ہوئے لوگوں کو بچانے کی کوشش کیا کریں تاکہ آپ کو سارا دن اپنے پیاروں کو موت کے منہ میں بیٹھا دیکھ کر اذیت نہ اٹھانی پڑے، یہ ملک اشرافیہ کا ہے اور یہاں کے سارے وسائل انہی لوگوں کی عیاشیوں کے لیے بروئے کار لائے جاتے ہیں، ایک عام شہری کی زندگی سنوارنے یا بچانے کا پروگرام یہاں کسی کے پاس نہیں۔