یاد ماضی! پھولوں کی چادر

479

اللہ تبارک وتعالیٰ کا بے حد احسان ہے کہ نوجوانی کے چند ایام مرکز اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان، 1- اے ذیلدار پارک، اچھرہ، لاہور میں گزرے۔ جہاں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا وہیں برادر محترم سراج الحق، اظہار الحق، میاں محمد اویس قاسم، وقاص انجم جعفری سمیت بہت ہی پیارے بھائیوں کی صحبت بھی نصیب ہوئی۔ گزشتہ دنوں جب بابا فرید گنج شکر کی درگاہ پر جانے کا اتفاق ہوا تو دوست احباب کے بڑے بڑے تبصرے پڑھنے کو ملے۔ ان تبصروں نے مرکز جمعیت کا ایک خوش گوار واقع یاد کروا دیا۔

مرکز اسلامی جمعیت طلبہ و مرکز اسلامی جمعیت طلبہ عربیہ کے ارکان و کارکنان نماز کی ادائیگی کے لیے سید ابوالاعلی مودودیؒ کے گھر 5- اے، ذیلدار پارک، اچھرہ جایا کرتے تھے۔ جہاں سید مودودی مرحوم کی قبر مبارکہ بھی ہے۔ مرکز میں دن رات کام کرتے کرتے اکثر اوقات ہم دن بھول جایا کرتے تھے کہ آج کون سا دن ہے، مگر جمعرات کو مغرب کی نماز کی ادائیگی کے لیے جیسے ہی مولانا کے گھر پہنچتے تو مولانا مودودیؒ کی قبر مبارکہ پر گلاب کے پھولوں کی چادر سے اندازہ ہوتا کہ آج جمعرات ہے۔ یہ سلسلہ خاصے دنوں تک جاری رہا۔ مولانا کی قبر مبارکہ پر اکثر تحریکی و غیر تحریکی افراد آتے جاتے رہتے ہیں۔ اس لیے ہم نے کوئی خاص نوٹس نہیں لیا۔

ایک جمعرات دیکھا کہ قبر پر پھولوں کی چادر نہیں چڑھائی گئی۔ تھوڑی بہت تشویش ہوئی مگر جیسے ہی نماز مغرب سے فارغ ہوئے تو ایک صاحب پر نظر پڑی جو خاصی پریشانی کے عالم میں دیوار کے ساتھ بیٹھے زارو قطار رو رہے ہیں اور پاس ہی ان کے پھولوں سے بھرا شاپر پڑا ہے۔ ان سے بات ہوئی تو پتا چلا کہ موصوف ہی ہر جمعرات کو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی قبر مبارکہ پر پھولوں کی چادر چڑھاتے ہیں۔ اور آج جمعیت طلبہ عربیہ اور اسلامی جمعیت طلبہ کے کٹر قسم کے اہلحدیث ساتھیوں نے انہیں پھولوں کی چادر چڑھانے سے منع کر دیا ہے۔ ہم ان کی دلجوئی کے لیے انہیں مرکز جمعیت لے گئے، تعارف ہوا تو پتا چلا موصوف گوجرانولہ کے رہائشی ہیں ہر جمعرات کو گوجرانولہ سے لاہور بڑی عقیدت کے ساتھ آتے ہیں داتا علی ہجویریؒ کے مزار پر چاولوں کی دیگ تقسیم کرتے ہیں، مزار پر پھولوں کی چادر چڑھانے کے بعد 5- اے ذیلدار پارک، اچھرہ مولانا مودودیؒ کی قبر مبارکہ پر حاضری دیتے ہیں پھولوں کی چادر چڑھاتے ہیں، تلاوت کرتے ہیں اور واپس گوجرانولہ روانہ ہو جاتے ہیں۔

ہم نے ان کی حوصلہ افزائی کی ان کی ہمت کی داد دی اور کہا کہ ہم ساتھیوں کی طرف سے معافی مانگتے ہیں، کوئی بات نہیں آئیں ہمارے ساتھ اور چادر چڑھائیں، انہوں نے بڑی عقیدت کے ساتھ پھولوں کی چادر مولانا مودودیؒ کے مزار پر چڑھائی، شکرانے کے نوافل پڑھے ہمیں دعائیں دیں اور یہ اجازت لے کر کہ میں ہر جمعرات کو آ جایا کروں چلے گئے۔ چند جمعراتوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا مگر ایک جمعرات کو پھر ہمارے اہلحدیث بھائیوں نے ان سے جھگڑنا شروع کر دیا وہ پریشانی کے عالم میں ہمارے پاس آئے ہم نے انہیں لٹریچر کی کچھ کتابوں کا تحفہ دیا اور مزاق ہی مزاق میں کہا کہ آپ داتا ہجویری صاحب کے دربار پر دیگ بھی چڑھاتے ہیں اور ادھر خالی پھولوں کی چادر، اس لیے لوگ آپ سے خفا ہوئے ہیں۔ وہ مسکراتے ہوئے چلے گئے مگر اگلی بار موصوف نے پھولوں کی چادر چڑھانے کے ساتھ ساتھ نمازیوں میں چاولوں کی تھیلیاں بھی تقسیم کیں۔ اس پر تو ہمارے ساتھیوں نے باقاعدہ اودھم مچانا شروع کر دیا وہ پھر پریشانی کے عالم میں ہماری طرف آئے تو ہم نے ایک بار پھر انہیں تسلی دی اور کہا کہ کوئی بات نہیں آپ پریشان نہ ہوں یہاں ہر قسم کے نوجوان ہیں ہم ان کو سمجھائیں گے اور ساتھ ہی پھر مزاق مزاق میں کہہ دیا کہ خالی سادہ چاولوں کی تھیلیوں پر غصہ تو ان بے چاروں کا بنتا ہی ہے۔ وہ صاحب پھر مسکرا کر چل دیے مگر جب اگلی بار آئے تو یقین مانیے چاولوں کی ہر تھیلی میں چاول کم اور مرغی کا گوشت زیادہ تھا۔ مگر اس بار ہمارے ان کٹر اہلحدیث دوستوں کے تیور بھی پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک ہو چکے تھے۔ جن میں عبدالعزیز عابد المعروف بھولا، محمد ساجد بھٹی المعروف ساجدہ سلاجک اور چند دیگر جمعیت طلبہ عربیہ و اسلامی جمعیت طلبہ کے اراکین پیش پیش تھے۔ انہوں نے نہ صرف موصوف کو برا بھلا کہا بلکہ بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ اس دوران ہم یعنی برادر عبداللہ یاسر، عبدالحئی عابد اور راقم مولانا مودودیؒ کی قبر مبارکہ کے ساتھ بیٹھ کر چاولوں کی تھیلیوں میں سے مرغی کی بوٹیاں چن چن کھانے میں مصروف ہو گئے۔ موصوف ہماری طرف دیکھیں تو ہم زور زور سے اللہ ہو، اللہ ہو کا ورد شروع کر دیں اور مزے مزے سے بوٹیوں پر ہاتھ صاف کرتے جائیں۔

اس سے پہلے کہ بات زیادہ بڑھتی میاں عبد الستار المعروف میاں چپ چپ اور چند دیگر ذمے داران جمعیت و عربیہ نے موصوف کی ان کٹر جماعتی وہابیوں سے اللہ اللہ کر کے جان چھڑوائی۔ وہ صاحب بچی کھچی ساری تھیلیاں اللہ ہو اللہ ہو کا ورد کرتے ہمارے پاس چھوڑ کر گوجرانولہ کو سدھار گئے۔ ان کے رخصت ہونے کے بعد وہی شیر دل بہادر جوان جو چاولوں کی تھیلیوں اور پھولوں کی چادر کی وجہ سے موصوف سے جھگڑ رہے تھے ہم پر جھپٹ پڑے بزور تھیلیاں چھینی اور وہیں مولانا کی قبر مبارکہ پر ہمارے ساتھ بیٹھ کر بڑبڑاتے ہوئے چاول کھانے لگے۔ بڑبڑانے کی وجہ بوٹیاں کم ملنے کی تھی کہیں آپ یہ نا سمجھ لیں کہ ہم نے جھگڑے میں ان کا ساتھ نہیں دیا تو شاید اس لیے بڑبڑا رہے تھے۔ موصوف کا اسم گرامی میں بھول گیا ہوں لیکن موصوف کے بارے میں پتا چلا کہ وہ بعد میں جماعت اسلامی کے باقاعدہ سرگرم رکن بن گئے۔