پاک افغان تعلقات اور امیر جماعت ِ اسلامی

659

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ افغان حکومت خاموش رہنے کے بجائے پاکستان میں قیام امن کے لیے ذمے دارانہ کردار ادا کرے۔ ترقی اور عوام کی خوشحالی دونوں ممالک میں امن سے مشروط ہے، افغانستان میں امن کے لیے بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں امن ہو، پاکستانیوں نے افغانستان کے لیے تاریخی قربانیاں دیں، 40لاکھ افغان پناہ گزینوں کی عرصہ دراز تک میزبانی کی، افغانستان کی استعماری طاقتوں سے آزادی میں پاکستانیوں کے اس ایثار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، دشمن نہیں چاہتے کہ دونوں اسلامی ممالک ایک دوسرے کے قریب ہوں، ان سازشوں کا قلع قمع ضروری ہے۔ کابل اور اسلام آباد میں برادرانہ تعلقات آئندہ نسلوں کی بہتری اور خطے میں تجارت کے فروغ کا باعث بنے گا۔ اس سے نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورا وسطی ایشیا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردانہ کارروائیوں سے تمام پاکستانی پریشان ہیں، مساجد تک محفوظ نہیں، پاک افغان سرحد پر ٹینشن ختم کرنا ہو گی۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے ان خیالات کا اظہار افغان سفیر سردار احمد خان شکیب سے اسلام آباد میں نائب امیر جماعت اسلامی میاں اسلم کی رہائش گاہ پر ملاقات کے دوران کیا جس میں ڈائریکٹر امور خارجہ جماعت اسلامی آصف لقمان قاضی بھی شریک تھے۔ انہوں نے درست ہی فرمایا کہ پاکستان اور افغانستان میں امن ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔ اگر پاکستان بے امنی کا شکار رہے گا تو افغانستان میں اور اگر افغانستان بے امنی کا شکار رہے گا تو پاکستان میں امن کا قیام بہت مشکل ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان جب تک امن قائم نہیں ہوگا نہ تو دو طرفہ خوشگوار تعلقات استوار ہو سکیں گے اور نہ ہی دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تجارتی تعلقات بحال ہو سکیں گے۔ امن اور خوشگوار دو طرفہ تعلقات کے لیے پہلی شرط دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ بد قسمتی سے دونوں ممالک کئی برسوں سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں۔ ماضی میں افغانستان میں جو بھی دہشت گردانہ واقعات ہوتے رہے ہیں، افغانستان اس سلسلے میں پاکستان کی جانب سے مشکوک رہا ہے اور ہر چھوٹے بڑے واقعے کا ذمے دار پاکستان کو قرار دیتا رہا ہے جبکہ پاکستان نہایت واضح الفاظ میں نہ صرف ان واقعات کی بھر پور مذمت کرتا رہا ہے بلکہ اپنے ملوث نہ ہونے یقین بھی دلاتا رہا ہے۔ اب معاملہ اس کے بر عکس ہوگیا ہے۔ پاکستان میں روز بروز دہشت گردی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان واقعات کی ذمے داری پاکستان براہِ راست افغان حکومت پر تو نہیں ڈال رہا لیکن وہ چاہتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے وہ جنگجو، جنہوں نے پاکستان سے فرار ہونے کے بعد افغانستان میں پناہ لی ہوئی ہے، ان کو افغانستان محفوظ مقامات فراہم نہ کرے کیونکہ وہی لوگ بار بار پاکستان میں داخل ہوکر پاکستان کے امن کو خراب کرنے کے ذمے دار ہیں۔

ایک وقت تھا کہ افغانستان روس کے خلاف جہاد میں مصروف تھا۔ کیونکہ پاکستان اور افغانستان، دونوں اسلام کے رشتے میں جڑے ہوئے ہیں اس لیے ردِ عمل کے طور پر ان سب کا روس کے خلاف میدانِ عمل میں کودنا ایک فطری عمل تھا۔ اس دوران دونوں جانب کے متحرب گروہ سرحدی پابندیوں کی مسلسل خلاف ورزیاں کرتے رہے۔ ان کی اس جہادِ ایمانی کا فائدہ اٹھا کر پاکستان میں بھی ایک گروہ نے اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی جس کا شاید ہی حقیقی جہاد سے کوئی تعلق رہا ہو۔ روس کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد یہ گروہ پاکستان میں اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے میں سر گرم ہو گیا تو حکومت ِ وقت ان کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور ہو گئی جس کے نتیجے میں کچھ تو زد میں آگئے اور کچھ راہِ فرار اختیار کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ فرار ہونے والوں نے افغانستان کا رخ کیا جو اب دوبارہ منظم ہو کر پاکستان کے سرحدی علاقوں پر اکثر اپنی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ ایسے تمام شر پسند عناصر کی سرکوبی ضروری ہے کیوں کہ ان کارروائیوں کی وجہ سے تجارت سمیت ہر قسم کے تعلقات کشیدہ رہنے کا احتمال ہے جو دونوں ممالک کے لیے کسی صورت نیک شگون نہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جب افغانستان میں روسی جارحیت کی وجہ سے حالات خراب ہوئے تو پاکستان نے پاکستان میں پناہ لینے والے افغانیوں کا بہر لحاظ خیال رکھا اور کئی برسوں تک ان کی مہمانداری کی۔ اب بھی لاکھوں افغانی پاکستان میں مقیم ہیں اور بیش تر تو پاکستان کی قومیت بھی حاصل کر چکے ہیں۔ افغان وار کی وجہ سے پاکستان کو کافی مشکلات کا سامنا بھی رہا ہے جن کے اثرات تاحال موجود ہیں۔ اس لیے افغانستان کو پاکستان کی مشکلات کو سمجھتے ہوئے جہاں تک ممکن ہو سکے ہر ایسے گروہ کے خلاف مناسب کرروائی کرنی چاہیے جو دو طرفہ امن کے لیے خطرہ ہو۔

یہاں یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ وہ ممالک جو پاکستان سے ازلی دشمنی رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستان کے اندرونی و بیرونی تعلقات خراب سے خراب تر ہوتے جائیں، وہ ان حالات کا بھرپور فائدہ اٹھانے کا موقع ہاتھ سے کیسے جانے دے سکتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ پاکستان ہو یا افغانستان، دونوں قیامِ امن کو بہر صورت ممکن بنائیں۔ دشمن کا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ اپنے دشمن کو ہر طرح سے کمزور سے کمزور کر دے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ جیسے کبھی افغانستان اندرونی طور پر گروہوں میں تقسیم تھا اور ایک دوسرے کے خلاف بر سرِ پیکار تھا تو دنیا نے اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی بالکل یہی صورتِ حال اب پاکستان میں پیدا ہوتی جا رہی ہے اور نہ صرف سیاسی جماعتوں میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے بلکہ عسکری و عدالتی وقار بھی روز بروز مجروح ہوتا جا رہا ہے۔ اگر صورت حال (خدا نخواستہ) ایسی ہی رہی تو پھر دشمن کو بھی اپنی دشمنی دکھانے کی ضرورت نہ رہے گی۔ اس لیے یہ بات، بقول امیر جماعت اسلامی، بہت ضروری ہے کہ دونوں ممالک اپنے اپنے ملکوں میں قیام امن کی کوششوں کو تیز سے تیز تر کریں تاکہ خطے میں ترقی و خوشحالی کے دور کا آغاز کیا جا سکے۔