محمد شکیل: عزم و ہمت کی چٹان

859

بہت اذیت میں تھا اب بہت آرام سے ہو گا۔ میں نے اپنی زندگی میں بڑے بڑے سورما دیکھے لیکن دنیا کا غم گلے لگ جائے تو بڑے بڑے جری زندگی کا گلا اپنے ہی ہاتھوں گھونٹ لیا کر لیتے ہیں۔ خیال کرتا تھا کہ دولت زندگی میں رنگ بھر دیتی ہے۔ جن کے پاس پیسوں کی ریل پیل ہو وہ دنیا کی ہر خوشی خرید کر اپنی جان کی تسکین کے اسباب پیدا کر لیتے ہوں گے۔ خود کشیاں تو غربت کے ہاتھوں تنگ آکر یا طویل بیماریوں کی اذیت برداشت کرتے کرتے تھک جانے والے موت کو گلے لگا لینے میں اذیت، ذلت یا اپنی بے کیفیت سے نجات کا سبب سمجھنے لگتے ہوں لیکن جب ان آنکھوں نے بڑے بڑے دولت مندوں اور صاحب ثروت لوگوں کو کسی ذہنی صدمے یا بیماری کی طوالت کے ہاتھوں خودکشیاں کرتے دیکھا تو تب یہ بات سمجھ میں آئی کہ نہیں ایسا نہیں کہ غربت اور جہالت کی تاریکیاں ہی کسی کو اندھا کر دیا کرتی ہیں بلکہ سچ تو صرف یہ ہے کہ امرا و کبرا بھی اپنی آنکھیں اور تقدیر خود اپنے ہاتھوں پھوڑ لیا کرتے ہیں۔ بہت کم افراد ایسے ہیں جو ہر حال میں حالات کا مقابلہ کرتے رہنا عبادت خیال کرتے ہیں، خواہ ان کو بہت اچھے دن میسر آئے ہوں یا کانٹوں بھری زندگی سے واسطہ پڑا ہو، وہ نہ صرف اپنے آپ کو سنبھالے رکھتے ہیں بلکہ اپنے ساتھ لگی جتنی بھی ذمے داریاں ہوتی ہیں ان سب کو زندگی کی آخری سانسوں تک ادا کرتے رہتے ہیں۔

محمد شکیل ایک ایسا ہی فرد تھا جس نے اپنی آخری سانسوں تک زندگی سے ہار نہیں مانی۔ یہ بھی نہیں کہ اس نے اپنی زندگی کے بہت اچھے دن نہیں دیکھے لیکن یہ بھی نہیں کہ آزمائشوں کے دن اس پر کبھی نہیں آئے۔ اچھے دن پر بھی وہ راضی بہ رضا رہا اور آزمائشوں پر بھی کبھی شکوہ سنج نہیں دکھائی دیا۔ فنکار آدمی تھا اور اپنے فن کا لوہا زندگی بھر منواتا رہا۔ ایک سادہ سا مسلمان تھا، نہ بہت عابد و زاہد اور نہ ہی محض دنیادار۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسے جماعت ِ اسلامی والوں نے اپنے لیے رکن جماعت بھی منتخب کر لیا تھا۔ یہی سادگی، سچائی، اپنے فن سے محبت اور دیانتداری ہی اس کی کامیابی کی کنجی تھی۔

ایک زمانہ تھا کہ کتابت ایک اعلیٰ ترین فن کہلایا کرتا تھا اور اچھے کاتبوں کو معیاری رسالے اور اخبارات اپنے سروں پر تاج کی طرح سجالیا کرتے تھے۔ ایک وہ بھی زمانہ تھا جب ٹائپنگ جاننے والے کبھی نوکریوں سے محروم نہیں رہا کرتے تھے۔ شارٹ ہنڈ کی بات ہی کچھ اور تھی اور شاید ہی کوئی حساس دفتر یا محکمہ و ادارہ ہو جہاں اسٹینو گرافروں کو عزت نہ دی جاتی ہو لیکن زمانے کے ساتھ ساتھ نہ جانے کتنی اہمیت والے فنون غیر اہم ہوتے چلے گئے اور کتنے نئے نئے ہنر جاننے اور سمجھنے والے پرانوں کی جگہوں کے متبادل بننے کی وجہ سے کتاب، ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈ جاننے والوں کی اہمیت صفر کرتے چلے گئے۔ شکیل بھی زمانے کے اسی نشیب و فراز سے گزرا اور اپنے فن کی بدولت اپنے انتہائی عروج کو چھونے کے بعد اس کے ہر گزرے دن زوال کا شکار ہوتے چلے گئے کیونکہ جب سے کمپیوٹر گھر گھر عام ہونے لگا اور بہت سارے نوجوان کمپیوٹر لٹریسی سے آشنائی حاصل کرتے چلے گئے، بازار میں ان کے فن کا صلہ کم سے کم ہوتا چلا گیا۔ ایک ایسا فرد جو اپنے فن سے کبھی بہت کچھ حاصل کر لیا کرتا تھا، وہ کچھ حاصل نہ کر سکا جو وہ حاصل کیا کرتا تھا اور یوں ایک شخص ایک بہت سجے سجائے دفتر سے سمٹتا ہوا پورے دفتر کو گھر کی چار دیواری تک محدود کرنے پر مجبور ہوگیا۔

کسی کسی کی زندگی نشیب و فراز سے مزین ہوتی ہے اور کوئی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو سونے کا چمچہ لیکر دنیا میں آتا ہے اور قارون کا خزانہ اپنے ساتھ لیکر دفن ہو جاتا ہے۔ ہر قسم کے نشیب و فراز کے دور دیکھنے والے بہت ہوںگے جن میں سے میں نے ایک شکیل کو بھی دیکھا۔ یہ وہی شکیل ہے جس کو میں نے پہلی مرتبہ اس وقت دیکھا تھا جب میرے سسر نے اسے اپنی سب سے چھوٹی سے بڑی بیٹی کے لیے پسند کیا تھا۔ نام تو بے شک ’’شکیل‘‘ تھا لیکن بظاہر وہ اسمِ بامسمیٰ نہیں تھا۔ ایک عام سی شکل و صورت کا مالک تھا لیکن اس کے ساتھ بیٹھ کر اندازہ ہوا کہ وہ اندر سے شکیل ہی نہیں بلکہ ’’یوسف‘‘ سا ہے۔ وہ جس کے ساتھ بھی کچھ وقت گزار لیتا وہ اس کو ظاہر اور باطن سے ’’شکیل‘‘ ہی نظر آنے لگتا تھا۔

ہمارے معاشرے میں ’’ہم زلفوں‘‘ کے درمیان عموماً بہت ہی عامیانہ سے تعلقات ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ملنا جلنا واجبی سا ہوتا ہے اور دوم یہ کہ ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بہت اچھا خیال بھی نہیں کیا جاتا لیکن جس شکیل کی میں بات کر رہا ہوں، اس میں نہ جانے کیا بات تھی کہ میں اور شکیل سگے بھائیوں کی طرح سمجھے جاتے تھے۔ عادات کا اتنا اچھا تھا کہ میرے گھر میں میرے بھائی بہن ہوں یا میری والدہ، سب ہی شکیل کے آنے پر بہت خوش ہوا کرتے تھے۔ یہی حال شکیل کے بھائیوں، والدہ اور شکیل کے والد کا بھی تھا۔ ہم دونوں کے درمیان کوئی تکلف نہ تھا یہاں تک کے ہم دونوں پورے خاندان سمیت ایک دوسرے کے گھروں میں رہ بھی سکتے تھے اور دن ہو یا رات، کسی بھی پہر ایک دوسرے کے گھروں میں دھمک بھی سکتے تھے۔

آپ کسی ایک ایسے فرد کو اپنے تصور میں لائیں جس کو ایک موذی ترین بیماری نے پوری قوت کے ساتھ ایسے جکڑ لیا ہو کہ اس کا پورا معدہ نکال لینا پڑا ہو۔ اگر کسی فرد کے علم میں یہ بات آ جائے تو وہ تو ایسی خبر سن کر ہی ہاتھ پاؤں چھوڑ دیتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا شاکر چند ماہ میں ہی بغیر پیٹ اپنی زندگی کی جانب ایسا لوٹا کہ میلوں موٹر سائیکل پر سفر کیا کرتا تھا۔ وہ بتائے نہیں تو کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ بے معدے والا انسان ہے۔ کچھ امراض ایسے ہوتے ہیں جو ایک عضو کو چھولیں تو مکڑی کے جالے کی طرح پھیل جاتے ہیں۔ معدہ نکال لینے سے یہ ضرور ہوا کہ شدید اذیت سے نجات ملی یا زندگی کی سانسوں کی آمد و رفت کا کچھ وقت بڑھ گیا لیکن جو مرض لگ چکا تھا وہ جسم کے اندر کے ہر عضو کو دیمک کی طرح چاٹتا چلا گیا۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کہ اس کے ساتھ آنے والے دنوں میں کیا ہونے والا ہے، شکیل کی آنکھوں میں میں نے امید کی کرنوں کے علاوہ کبھی کچھ اور نہیں دیکھا۔ اسپتال میں بھی وہ آخری وقت تک یہی کہتا رہا کہ مجھے کچھ نہیں ہوا، مجھے گھر لے چلو لیکن اس کی روح کو شاید کسی آئی سی یو سے ہی پرواز کرنا تھا۔ میرے شکیل، میرے لبوں پر ہر دم یہی دعا رہتی ہے کہ

آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے