ڈریکولا اور عوام

682

اگر میں یہ بات کہوں تو اس میں ذرا بھی جھوٹ نہیں ہوگا کہ پاکستان میں ہر آنے والے دن کے ساتھ مہنگائی کا آگ برساتا سورج بلند سے بلند اور گرم سے گرم تر ہی ہوتا گیا ہے لیکن مہنگائی اور لوگوں کی قوتِ خرید میں 2018 تک کسی حد تک توازن ضرور نظر آیا ہے۔ جہاں مہنگائی کا تیر عمودی پرواز کرتا ہوا دیکھا گیا وہیں یا تو روزگار کے موقعوں میں اضافہ ہوا یا پھر ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا جس کی وجہ سے غربت کی لکیر سے نیچے جانے والوں کی وہ سیلابی صورت حال دیکھنے میں نہیں آئی جو 2018 کے بعد سے اب تک مسلسل دیکھنے میں آ رہی ہے۔
عمران خان کے دور حکومت میں اگر عوام پریشان تھے تو اس کی وجہ صرف اور صرف مہنگائی تھی ورنہ تو باقی اور کچھ ویسا ہی تھا جیسا ہمیشہ سے رہتا آیا تھا۔ عمران خان کے دور میں مہنگائی کی وجہ محض اس لیے تھی کہ اس کے ساڑھے تین سالہ دور میں کوئی قابل ذکر ترقیاتی کام نہیں ہوئے۔ کسی قسم کے بڑے منصوبے دیکھنے میں نہیں آئے، موٹر ویز، ملیں، کارخانے، حکومتی ہاؤسنگ اسکیمیں وغیرہ، کچھ بھی دکھائی نہیں دیے جبکہ اس کے برعکس پورے ملک کی تزئین و آرائش بڑھانے کے لیے گلی گلی توڑ پھوڑ کے کاموں کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ نئے منصوبے شروع نہ ہونا اور ہر گلی میں توڑ پھوڑ کے سلسلوں نے روز گار کے سارے امکانات کے دروازے بند کر کے رکھ دیے جس کے نتیجے میں نہ صرف بے روز گاری نے شدت کے ساتھ جنم لیا بلکہ مہنگائی اور بدامنی کے طوفان نے ایسا سر اٹھایا کہ لانے والے اپنے ہی لائے ہوئوں کے خلاف ڈنڈا اٹھانے پر مجبور ہو گئے۔ امید تھی کہ شاید پرانے والوں کو کام پر لگائے جانے سے ملک میں اگر مہنگائی کا طوفان ختم نہیں بھی ہوگا تو جہاں تک سیلابِ بلا امڈ آیا ہے کم از کم وہاں پر ہی روک لیا جائے گا لیکن پرانے والوں نے تو وہ سارے سیلابی بند بھی توڑ ڈالے جنہوں نے سیلاب کو آج سے تین گنا کم پر روکا ہوا تھا اور ابھی کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ سر پھرا یہ سیلابی ریلا کس کس کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے۔
مہنگائی کا عفریت اپنی جگہ لیکن کبھی قوم سوئی چبھ جانے پر بھی اتنی بے قرار ہو جاتی تھی کہ پورے پاکستان میں زلزلہ آ جایا کرتا تھا۔ ’’20 روپے من آٹا اور اس پر بھی سناٹا‘‘ والا شعر آج تک زباں زدِ عام ہے۔ عسکری حکومتیں بھی جب جب غالب آتیں وہ سویلین کی مہنگائی کا بہانا بنا کر منتخب حکومتوں کو ایک ٹھوکر سے تخت سے فرش پر ڈھیر کر دیا کرتیں تھیں لیکن انجامِ کار خود بھی مہنگائی کی وجہ سے عوام کی نظروں سے اتنی بری طرح گرجاتیں کہ عوام کے احتجاجی ریلے تنکوں کی طرح ان کو بھی بہا کر لے جاتے۔ یہ اتھل پتھل پاکستان کے بننے کے بعد سے تا حال جاری ہے۔ ہر حکومت مہنگائی اور کرپشن کا خاتمہ کرنے کا دعویٰ لے کر اٹھتی ہے اور پھر خود مہنگائی اور کرپشن کا عفریت اس کو نگل لیتا ہے۔ یہ آنا جانا اپنی جگہ لیکن عوام کا بے حس ہوجانا اور بڑے سے بڑے ظلم پر خاموشی اختیار کر کے بیٹھ رہنا نہایت حیرت اور تشویشناک ہے۔ لوگ اب ہر قسم کی ظلم و زیادتی کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ کوئی آہ بھرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ دیانتداری کی بات یہ ہے کہ پاکستانیوں کی حالت زار ذیل میں منقول ایک قصے جیسی ہو کر رہ گئی ہے۔
’’ایک بحری جہاز پر ایک ڈریکولا انسانی روپ میں سوار تھا۔ رات ہوتے ہی وہ جہاز پر سوار کسی انسان کا خون پیتا اور یوں اپنی پیاس بجھاتا۔ ایک روز یہ بحری جہاز بیچ سمندر میں کسی چٹان سے ٹکرا گیا۔ لوگ فوراً لائف بوٹس کی طرف بھاگے۔ ڈریکولا بھی ایک آدمی کی مدد سے ایک لائف بوٹ پر سوار ہو گیا۔ قسمت کی خرابی کہ اس کی لائف بوٹ پر صرف ایک ہی شخص تھا اور یہ ہی وہ شخص تھا جس نے اسے بچایا اور بوٹ میں آنے میں مدد کی۔ رات ہوئی تو ڈریکولا کو انسانی خون پینے کی خواہش ہوئی۔ ڈریکولا نے خود سے کہا کہ یہ بے شرمی ہو گی جو میں اپنے محسن کا خون پیوں۔ اس نیک انسان نے ہی تو مجھے ڈوبنے سے بچایا ہے۔ دو تین دن وہ اپنے آپ کو روکتا رہا لیکن ایک دن اس پر فطرت غالب آ گئی۔ اس نے سوچا کہ اگر میں نے اس کا بھی خون پی لیا تو پھر کیا ہوگا، اس کے مرنے کے بعد میں بھوکا مر جاؤں گا۔ یہ سوچ کر اس نے اس انسان کے خون کے چند گھونٹ ہی پیے۔ وہ انسان اتنا ہمدرد تھا کہ جو بھی مچھلیاں پکڑتا وہ خود بھی کھاتا اور اسے بھی کھلاتا، ڈریکولا ہر دوسرے تیسرے دن اپنی
فطرت سے مجبور ہو کر اس انسان کے خون سے چند گھونٹ پی لیا کرتا تھا۔ ایک دن اس نے غور کیا کہ اس انسان کی صحت دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ منہ زرد ہوتا جا رہا ہے لیکن وہ ہے کہ رات دن اس کی خدمت میں لگا ہوا ہے۔ جو خود کھاتا اسے بھی کھلاتا اور جو پیتا اسے بھی پلاتا۔ اس نے سوچا کہ اب خواہ اس کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے وہ کبھی اس شریف انسان کا خون نہیں پیے گا۔ ڈریکولا کو عہد کئی ہوئے کافی دن گزر گئے تو ایک دن اس شخص نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ کیا بات ہے تم نے بہت دنوں سے میرا خون نہیں پیا۔ ڈریکولا ایک دم پریشان ہو گیا کیونکہ وہ تو اپنے محسن کا خون اس کی گہری نیند کے دوران پیتا تھا اور اس کا خیال تھا کہ یہ بات اس کے محسن کے علم میں نہیں۔ اس نے حیرت سے کہا کہ کیا تمہیں خبر ہے کہ میں تمہارا خون پیتا تھا۔ اس کے محسن نے جواب دیا تھا کہ جس وقت میں جہاز سے تمہیں اپنی لائف بوٹ میں منتقل کر رہا تھا تو مجھے احساس ہو گیا تھا تم انسان نہیں ہو اس لیے کہ تمہارے ہاتھ برف کی مانند ٹھنڈے تھے۔ ڈریکولا نے کہا کہ پھر تم نے مجھے خون پینے سے روکا کیوں نہیں، اس نے جواب دیا کہ جب تم نے پہلی بار میرا خون چوسا تھا تو مجھے تکلیف ہوئی تھی لیکن پھر اپنا خون چسوانے میں مجھے مزا آنے لگا۔ اب بہت دنوں سے تم میرا خون نہیں پی رہے ہو تو مجھے بھی کئی راتوں سے نیند نہیں آ رہی‘‘۔
اب یہ بتانے کی شاید ضرورت ہی باقی نہیں رہی کہ عوام پر مہنگائی کے جس قدر چاہے بم کیوں نہ برسائیں جائیں، وہ سڑکوں پر آ کر احتجاج کرنے کے لیے تیار کیوں نہیں ہو رہے۔