مقابلے کے رحجانات کو بدلیے

541

انسانی رویے ہی کسی قوم کی پہچان ہوتے ہیں، انسانی رویوں ہی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ قوم کتنی عظیم ہے یا پست۔ رویے ہی بتائیں گے کہ اس قوم کی اخلاقی قدریں کیا ہیں، تعلیمی معیار کیا ہے، کتنی حیا دار و وضع دار ہے حتیٰ کہ یہ بھی پتا چلے گا کہ کتنی سعادت مند اور سلیقہ شعار قوم ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کا بچہ تعلیمی میدان میں جتنا مرضی اچھا ہو لیکن گلی محلے، شہر و گاؤں کے لوگوں کو جب تک ڈگری دکھائے گا نہیں اس وقت تک اس کی قابلیت کا کوئی اندازہ نہیں ہو گا۔ مگر اس کا گلی محلے کے لوگوں سے رویہ فوراً اس کی پہچان کروا دے گا کہ یہ بچہ کیسا ہے، اس کا خاندان کیسا ہے، اس کی علمی استعداد کیسی ہے۔بحیثیت قوم ہمیں اب اپنے رویوں خاص کر معاشرتی زندگی میں مقابلے کے رحجانات کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر کی ترقی یافتہ اقوام کے معاشرتی فرائض یا مقابلے کے رحجانات دیکھیں، پرکھیں اور پھر اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ہماری پستی کی وجوہات صاف شفاف نظر آنے میں دیر نہیں لگے گی۔
آج جب ترقی یافتہ ممالک کے انفرادی یا اجتماعی رویوں کو دیکھا جائے تو آپ کو کہیں کپڑوں و جوتوں کی دوڑ نظر نہیں آئے گی کوئی کسی کے مہنگے ترین برینڈڈ کپڑوں و جوتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے نظر نہیں آئے گا نہ ہی وہاں مہنگی گاڑیوں کا مقابلہ نظر آئے گا نہ ہی بڑے گھروں کا کوئی مقابلہ ہوتا ہوا دیکھیں گے۔ نہ باہر بڑے ہوٹلوں میں کھانا کھانے کے مقابلے نظر آئیں گے۔ ہر کوئی اپنی ضرورت اور استعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروریات زندگی کا سامان استعمال کرتا ہوا نظر آئے گا۔ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے انسانی قدروں کی پاسداری کے مقابلے ضرور ملیں گے، بغیر کسی کے کپڑے و جوتے، گاڑی و مکان دیکھے ایک دوسرے سے اخلاق سے پیش آنے میں پہل کا مقابلہ ہو رہا ہو گا۔ شکریہ، معافی اور عاجزی ہر ایک کے لہجے سے جھلکتی نظر آئے گی۔ گلی محلے و گھر کو صاف ستھرا رکھنے کا مقابلہ ہو رہا ہو گا۔ لائن میں لگ کر اپنی باری کا انتظار وہاں کا وزیراعظم اور صدر بھی کرتا ہوا نظر آئے گا۔
چند سال قبل میرا ایک کزن جو پیدائشی یورپین ہے، اپنے والد کے ساتھ پاکستان آیا تو میں نے اسے اپنے گاؤں کے گندے بازار میں بڑی بے چینی سے ٹہلتا ہوا پایا میں نے پوچھا کیا مسئلہ ہے خیریت تو ہے کہنے لگا مجھے ڈسٹ بن نہیں مل رہا مجھے بسکٹ کے ریپر پھینکنے ہیں۔ موصوف ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد لاکھوں ڈالر ماہانہ کماتے ہیں اور ان کے کپڑے و جوتے انتہائی سادہ بلکہ ہمارے گاؤں کے عام سے آدمی سے بھی کم تر۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ جن کے اندر کچھ ہو ان کو مصنوعی ٹپ ٹاپ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ گزشتہ دنوں پڑوس کے ایک گاؤں سے چند دوست احباب کی شادی کے دعوت نامے ملے جو ہمارے معاشرے کے معاشرتی مقابلے کے رحجانات کی بھرپور عکاسی کر رہے تھے۔ پہلا دعوت نامہ ایسا تھا جیسے لیڈیز پرس ہو۔ دوسرا دعوت نامہ تو آٹھ دس صفحات کا مکمل نیوز لیٹر تھا اور تیسرا دعوت نامہ چھوٹے بریف کیس جتنا جو شادی کارڈ کے ساتھ ڈرائی فروٹ سے بھرا ہوا۔ اب پتا نہیں آگے یہ بات کہاں جا کر رکے گی۔
اسی طرح ہمارے معاشرے کے عمومی مقابلے کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں۔ میرا سوٹ بیس ہزار کا ہے اس کا لہنگا پانچ لاکھ کا ہے اس کے جوتے تیس ہزار کے ہیں اس کی شادی پر بیس قسم کے کھانے تھے مجھے ان گنت کھانے پکانے ہیں۔ اس نے بیس تولے سونا پہنا ہوا ہے اس کا گھر پڑوسی کے گھر سے بیس فٹ اونچا ہے میں نے فلاں برانڈ کی گاڑی دس لاکھ اصل قیمت سے زائد دے کر پہلے لے لی ہے۔ اس نے بیٹی کو اتنا زیور، گاڑی، جہیز وغیرہ دیا ہے۔ اب تو یہ بھی مقابلے سننے کو ملتے ہیں میرے بچے پچاس ہزار فیس والے اسکول میں پڑھتے ہیں اور میرے بچے تیس ہزار فیس والے اسکول میں پڑھتے ہیں۔ میں نے دس عمرے کیے ہیں اور اس نے پندرہ، میرا موبائل فون دو لاکھ کا ہے ، میرا قربانی کا جانور پچیس لاکھ کا ہے۔ محکوم یا ترقی پزیر قوم و افراد قرضدار بن کر خوشی محسوس کرتے ہیں نا کہ قرض اتار کر مقابلہ قرض لینے کا ہو رہا ہوتا ہے۔ اس سے بڑھ کر نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ مقابلہ حلال کمائی کمانے کا نہیں حرام کمائی کما کر اسے نمود و نمائش کے ساتھ خرچ کرنے پر ہے۔
دراصل یہ سب مقابلے ہماری ذہنی پستی، ہمارے نیچ پنے ہماری کم ظرفی ، ہمارے اخلاقی دیوالیہ پن کی حقیقی تصویر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ ہم کپڑوں، جوتوں، گاڑیوں، مکانوں کے مقابلوں سے باہر نکل آئیں۔ کسی کو نیچ کم تر کرنے کے رحجانات اپنے ذہنوں سے نکال باہر کریں۔ اچھے اخلاق اعلیٰ اوصاف ، تقویٰ و پرہیزگاری، شرم و حیا، فرائض کی ادائیگی میں اپنے آپ کو بہتر کرنے کی کوشش کریں۔ ضروریات زندگی کی اشیاء اپنی اپنی چادر کے مطابق اپنی سہولت کے لیے استعمال کریں نہ کہ کسی پر اپنا رعب جمانے کے لیے۔