پھول کچھ کم کھلے ہیں اب کے سال

673

ایک بادشاہ کا گزر ایسے علاقے سے ہوا جہاں لوگ نہر سے ہی پانی پیتے تھے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ عوام کی سہولت کے لیے ایک گھڑا بھر کر رکھ دیا جائے تاکہ ہر چھوٹا بڑا سہولت کے ساتھ پانی پی سکے۔ بادشاہ یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا شاہی حکم پر ایک گھڑا خرید کر نہر کے کنارے رکھا جانے لگا تو ایک اہلکار نے مشورہ دیا یہ گھڑا عوامی دولت سے خرید کر شاہی حکم پر یہاں نصب کیا جارہا ہے، ضروری ہے کہ اس کی حفاظت کا بندوبست کیا جائے اور ایک سنتری کو چوکیداری کے لیے مقرر کیا جائے سنتری کی تعیناتی کے حکم ملنے پر یہ قباحت سامنے آئی کہ گھڑا بھرنے کے لیے ماشکی کا ہونا ضروری ہے اور ہفتے کے ساتوں دن صرف ایک ماشکی یا ایک سنتری کو نہیں پابند کیا جاسکتا بہتر ہوگا کہ سات سنتری اور سات ہی ماشکی ملازم رکھے جائیں تاکہ باری باری اور بلا تعطل یہ کام چلتا رہے ایک اور اہلکار نے رائے دی کہ نہر سے گھڑا بھرا ہوا اٹھاکر لانا نہ تو ماشکی کا کام ہے اور نہ ہی سنتری کا، اس محنت طلب کام کے لیے سات باربردار بھی رکھے جانے چاہئیں جو باری باری روزانہ بھرے ہوئے گھڑے کو احتیاط سے اٹھا کر لائیں اور اچھے طریقے سے ڈھکنا لگا کر بند کرکے رکھیں ایک اور دور اندیش مصائب نے مشورہ دیا کہ اتنے لوگوں کو رکھ کر کام منظم طریقے سے چلانے کے لیے ان اہلکاروں کا حساب اور تنخواہوں کا نظام چلانے کے لیے منشی محاسب رکھنے ضروری ہوں گے اکاؤنٹنگ کا ادارہ بنانا ہوگا اکاؤنٹینٹ متعین کرنا ہوں گے ایک اور ذی فہم اہلکار نے مشورہ دیا کہ یہ اسی صورت میں یقینی بنایا جاسکتا ہے کہ ہر کام اچھے طریقے سے چل رہا ہے تو ان ماشکیوں سنتریوں اور باربرداروں سے بہتر طریقے سے کام لینے کے لیے ایک ذاتی معاملات کا ایک شعبہ قائم کرنا پڑے گا، ایک اور مشورہ آیا کہ یہ سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے مگر ملازمین کے درمیان لڑائی جھگڑا یا کوئی زیادتی ہوجاتی ہے تو ان کا تصفیہ اور صلح صفائی کون کرائے گا، اس لیے خلاف ورزی اور اختلاف کرنے والوں کی تفتیش کے لیے قانونی امور کا محکمہ قائم کیا جانا چاہیے۔ ان سارے محکموں کی انشا کے بعد ایک صاحب کا یہ مشورہ آیا کہ اس سارے انتظام پر کوئی ہیڈ بھی مقرر ہونا چاہیے، لہٰذا ایک ڈائریکٹر بھی تعینات کردیا گیا۔ ایک سال بعد بادشاہ کا اپنی رعایا کے دورے کے دوران اسی مقام سے پھر گزر ہوا تو اس نے دیکھا کہ نہر کے کنارے ایک عظیم الشان عمارت کا وجود عمل میں آچکا ہے جس پر لگی روشنیاں دور سے نظر آتی ہیں، عمارت کا دبدبہ آنکھون کو خیرہ کیے دیتا ہے نیز عمارت کی پیشانی پر نمایاں انداز میں ’’وزارت انتظامی امور برائے گھڑا‘‘ کا بورڈ لگا ہوا ہے بادشاہ

اپنے مصاحبین کے ساتھ اندر داخل ہوا تو ایک الگ ہی جہان پایا، عمارت میں کئی کمرے میٹنگ روم اور دفاتر تھے ایک بڑے سے دفتر میں آرام دہ کرسی پر ایک پروقار معزز شخص بیٹھا تھا جس کے سامنے رکھی تختی پر ’’ڈائریکٹر جنرل برائے معاملات سرکاری گھڑا‘‘ لکھا ہوا تھا، بادشاہ نے حیرت کے ساتھ اپنے وزیر سے اس عمارت کا سبب اور اس عجیب و غریب محکمہ کے بارے میں پوچھا جس کا اس نے زندگی میں نام بھی نہیں سنا تھا۔ وزیر نے جواب دیا، حضور یہ سب آپ ہی کے حکم پر ہوا ہے آپ نے پچھلے سال عوام کی فلاح اور آسانی کے لیے یہاں ایک پانی کا گھڑا نصب کرنے کا حکم دیا تھا۔ بادشاہ حیرت کے ساتھ باہر نکل کر اس گھڑے کو دیکھنے گیا جس کو لگانے کا اس نے حکم دیا تھا بادشاہ نے دیکھا کہ گھڑا خالی اور ٹوٹا ہوا ہے اور سامنے ایک بورڈ لگا ہے ’’گھڑے کی مرمت اور بحالی کے لیے اپنے عطیات جمع کرائیں‘‘، بحکم وزارت انتظامی امور برائے گھڑا (منقول)۔

میں نے عین جوانی میں نیم سرکاری ادارے کی ملازمت اختیار کرکے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ 33 سال ملازمت کی زندگی گزار کر گوشہ نشینی اختیار کی۔ اب ادارے سے ریٹائرڈ ہوئے بھی 13 برس ہونے کو ہیں۔ میں نہایت دکھ اور دیانتداری کے ساتھ یہ بات کہنے سے کبھی انکار نہیں کر سکتا میرے ادارے میں چھوٹے بڑے جتنے بھی ملازم ہیں ان میں سے بصد مشکل 10 سے 15 فی صد ملازم اپنے اپنے فرائض ذمے داری سے ادا کرتے ہوں گے۔ تقریباً 85 فی صد افراد کا ادارے سے صرف اور صرف تنخواہیں وصول کرنے کا علاوہ کوئی اور تعلق نہیں۔

کالم کے آغاز میں جو واقعہ میں نے بیان کیا ہے، وہ حقیقتاً پاکستان کی تباہ حالی کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ ایوب خان کے بعد جتنی بھی حکومتیں بنیں، خواہ وہ سویلین کی رہی ہوں یا عسکری طاقتوں کی، اپنی اپنی حکومتوں کو طوالت دینے کے لیے سفارشوں کی وہ ایسی بارشیں کرتی رہیں کہ کوئی بھی سرکاری و نیم سرکاری ادارہ ایسا نہیں رہ گیا جہاں ضرورت سے زیادہ ملازم بھرتی نہیں کیے گئے ہوں۔ اس پر ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ اس میں قابلیت کو بالکل ہی نظر انداز کیا گیا۔ ہمارے سارے اداروں کے غیر فعال یا غیر ضروری ہونے کا اندازہ لگانے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ اگر عید بقراعید کے موقعوں پر پورے پاکستان کے محکمے پورے پورے ہفتے بھی بند کر دیے جائیں تو کہیں سے کہیں بھی ان کی غیر موجود کو محسوس نہیں کیا جاتا۔ گویا یہ ہفتے کے ساتوں دن کام کریں یا پورے ہفتے بند کر دیے جائیں تب بھی ملک کی کوئی بنیاد کہیں سے بھی ہلتی جلتی نظر نہیں آتی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ وہ عدالتیں ہوں، پولیس کا محکمہ ہو، محکمہ تعلیم ہو، اسمبلیاں ہو، سینیٹ ہو، وفاق کے تحت کام کرنے والی محکمے ہوں یا صوبائی حکومتوں کے تحت کام کرنے والے، ان سب میں زبردست چھٹائی کی ضرورت ہے۔ بقول رحمٰن کیانی

چھانٹنی ہیں گلاب کی شاخیں
پھول کچھ کم کھلے ہیں اب کے سال