شگفتہ شگفتہ

810

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر شخصیت اپنا ایک مقام رکھتی ہے۔ اس میں عمر کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ہر شخصیت، خواہ وہ بچہ ہو، جوان ہو، بڑی عمر کا ہو، دنیوی لحاظ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو، ان پڑھ ہو، عالمِ دین ہو یا مردِ میدان، ہم سب سے بہت ساری باتوں کی توقع رکھتے بھی ہیں اور نہیں بھی رکھتے۔ جیسے کسی کم سن بچے سے نکتے کی ایسی بات جس کی توقع ہم کسی بہت سمجھدار شخصیت سے کرتے ہوں، سن کی حیرت اور تعجب کا اظہار بھی کرتے ہیں، اگر اچھی عمر والا کوئی ایسی حرکت کر بیٹھے یا کوئی ایسی عام سی بات کہہ بیٹھے جو بالکل ہی بچکانہ سی ہو تو پاسِ ادب بے شک اسے روکنے ٹوکنے میں مانع ہو جاتا ہے لیکن بہر کیف اس کی حرکت یا بات ناگوار ضرور گزرتی ہے۔ عام لوگ جن میں ہمارے قریبی جاننے والے ہوں یا جن سے کسی بھی قسم کی بات متوقع ہو، ان کی بات پر بے اختیار ہنسی نہ بھی آئے پھر بھی لبوں پر مسکراہٹ کا بکھر جانا ایک فطری سی بات ہے لیکن علمائے کرام یا فقہائے دین کی محفل میں کوئی لطیف بات سننے کو ملے تو ان کی باتوں پر حیرت تو ضرور ہوتی ہے کہ اتنی متانت والے بھی کیا ایسی بات کہہ کر محفل کو کشت ِ زعفران بنا سکتے ہیں اور نہایت شستگی و شائستگی کے ساتھ لوگوں کے لیے خندہ لبی کا سامان مہیا کر سکتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ گلی گلی محلوں محلوں میلادالنبی کے جلسوں کا انعقاد ہوا کرتا تھا۔ مجھے احتشام الحق تھانوی کے جلسوں میں ان کا خطاب سننا بہت بھلا لگا کرتا تھا۔ ایک جلسے میں کوئی نکتے کی بات سمجھانے کے لیے انہوں نے ایک واقعہ کچھ اس طرح سنایا کہ حاضرین ِ جلسہ بہت محظوظ ہوئے۔ فرمانے لگے کہ ایک رنگروٹ کو چھٹی ملی تو وہ اپنے گھر کی جانب روانہ ہوا۔ بس سے اتر کر جہاں سے گھر کی جانب سفر کا آغاز کیا وہاں سے کئی چھوٹے چھوٹے ڈھوک راست میں پڑتے تھے۔ گاؤں دیہات والے اپنے آس پاس کے لوگوں سے خوب اچھے طریقے سے واقف ہوا کرتے ہیں۔ اتنے میں شام ہونے لگی لیکن ابھی سفر کافی باقی تھا۔ بھوک بھی چمک رہی تھی۔ ایک ڈھوک کے قریب سے گزرا تو ایک مائی تنور میں روٹیاں تھاپ رہی تھی۔ اس نے مائی سے روٹی کی فرمائش کردی۔ مائی نے کہا بیٹھ میں روٹیاں تھاپ لوں تو تجھے دیتی ہوں۔ مولانا فرماتے ہیں کہ اس کا ایک دو ڈھائی سال کا بچہ اس کے آس پاس ہی کھیل رہا تھا کہ اتنے میں مائی کی ریح آواز کے ساتھ خارج ہوئی۔ مائی نے شرمندگی چھپانے کے لیے اپنے بچے کی کمر پر ایک دھپ رسید کردی۔ رنگروٹ ساری بات سمجھ چکا تھا۔ اس نے بھی کوشش کرکے آواز کے ساتھ ریح خارج کی اور اٹھ کر بچے کی کمر پر ہلکے سے ایک ہاتھ مار دیا۔ مائی نے غصے سے کہا کہ ایک تو میں تیرے لیے روٹی پکا رہی ہوں اور تو میرے ہی بچے کو مار رہا ہے۔ رنگروٹ نے جواب دیا، معاف کرنا ماسی، میں سمجھا تھا کہ شاید اس ڈھوک کا یہی دستور ہے۔
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی امامِ عصر کے خطاب سے پکارے جاتے ہیں۔ اچھرہ کی مسجد میں درس دے رہے تھے کہ ایک بائیک والا پْرشور آواز کے ساتھ وہاں سے گزرا۔ مولانا کو خاموشی اختیار کرنا پڑی۔ جب وہ گزر گیا تو آپ نے فرمایا کہ سواری چھوٹی سی ہے لیکن شور اتنا مچاتی ہے جیسے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہو۔ یہ تو عصر ِ حاضر کے علما ہیں لیکن سننے والوں کو حیرت ہو گی کہ بڑے بڑے فقہا بھی بعض اوقات ایسی لطیف باتیں کہہ جاتے تھے کہ ہم جیسے لوگوں کے منہ حیرت سے کھلے کھلے رہ جاتے ہیں۔ وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ ایسے عالی مرتبت لوگوں سے ایسی باتیں سننے کی توقع ذرا کم ہی ہوا کرتی ہے۔
امام شعبی کے پاس ایک شخص مسئلہ پوچھنے آیا کہ میں نے ایک عورت سے شادی کی ہے جو لنگڑی نکلی ہے، تو کیا میں اس کو واپس کر سکتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تو اس کے ساتھ ریس لگانا چاہتا ہے تو پھر بلاشبہ واپس کر دے۔ امام شعبی سے ایک آدمی نے پوچھا کہ کیا احرام والا شخص اپنے بدن کو کھجا سکتا ہے؟۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں، بالکل کھجا سکتا ہے- سوالی نے پوچھا کہ کس حد تک کھجا سکتا ہے، امام شعبی نے فرمایا کہ جب تک اس کی ہڈیاں نظر آنا شروع ہو جائیں۔
امام شعبی سے سوال کیا گیا کہ ڈاڑھی پر مسح کیسے کرنا چاہیے، آپ نے جواب دیا کہ انگلیوں سے خلال کرنا چاہیے، اس پر اس نے کہا کہ اس میں شک رہتا ہے کہ شاید ٹھیک طریقے سے گیلی نہ ہوئی ہو، اس پر آپ نے فرمایا کہ ایسی صورت میں ڈاڑھی کو آدھی رات کو ہی بھگو دینا چاہیے۔
امام ابوحنیفہ کے پاس ایک شخص مسئلہ پوچھنے آیا کہ جب نہر میں نہایا جائے تو منہ قبلے کی طرف کرنا چاہیے یا دوسری طرف آپ نے فرمایا، بہتر ہے منہ کپڑوں کی طرف رکھو، کہیں کوئی چرا نہ لے جائے۔ شیخ ابن عثیمین اور ابن باز ایک مجلس میں اکٹھے تھے کہ ایک شخص نے سوال کیا کہ اس کا ایک دوست کہتا ہے کہ وہ ایک آلہ ایجاد کرنا چاہتا ہے جو نماز میں غلطی پر ٹوک دے گا، تو کیا ایسا آلہ بنانا جائز ہے، اس پر ابن باز تو خاموش رہے مگر شیخ صالح بن عثیمین ہنس پڑے اور کہا کہ اپنے دوست سے پوچھو کہ وہ آلہ غلطی پر سبحان اللہ کہے گا یا تالی بجائے گا؟۔ ابن عثیمین سے ایک شخص نے پوچھا کہ بندہ جب دعا کر لے تو کیا کرے، شیخ نے جواب دیا کہ ہاتھ نیچے کر لے۔ شیخ ابن عثیمین نکاح کے موضوع پر درس دے رہے تھے، درس کے بعد ایک شخص نے سوال کیا کہ اگر میں شادی کرتا ہوں اور بعد میں پتا چلتا ہے کہ میری بیوی کے دانت نہیں ہیں تو کیا نکاح فسخ کرنے کے لیے یہ وجہ معقول و مناسب ہو سکتی ہے۔ اس پر شیخ نے جواب دیا کہ ایسی بیوی تو غنیمت ہے جس سے تجھے کاٹ لیے جانے کا اندیشہ نہ ہو۔ بات بس اتنی سی ہے کہ سنجیدگی بے شک ایک بہت اچھی حکمت ہے لیکن کسی بھی انسان کو اتنا سنجیدہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ سننے والے اپنے لبوں پر مسکراہٹ بھی نہ سجا سکیں لیکن اس بات کا خیال ضروری ہے کہ سامنے والا آپ کی بات سمجھنے کا کتنا درک رکھتا ہے۔