ہر کام کا آغاز ’’ا لف ب‘‘ سے کرنا ہوگا

658

قدیم یونان میں ایک پہلوان جس کا نام مائیلو تھا۔ یہ اُس دور میں چھے دفعہ اولمپک جیت چکا تھا۔ اس پہلوان کی پہچان تھی کہ یہ ایک بڑے بیل کو اپنے کندھے پر لے کر چلتا تھا۔ طاقت کا یہ نظارہ ہی اس کے مخالفین کے لیے دل دہلا دینے کے لیے کافی ہوتا تھا اور وہ جنگ سے پہلے ہی جنگ ہار جاتے تھے۔ فرض کریں آپ بھی کورڈن گاؤں میں ہوتے اور دیکھتے کہ مائیلو ایک بیل کندھے پر بٹھائے چلا آرہا ہے تو آپ کیا کرتے۔ آپ بھی ایک بیل کو اٹھانے کی کوشش کرتے اور ناکام ہو جاتے۔ لیکن مائیلو نے کسی کو دیکھ کر بیل نہیں اٹھایا تھا۔ اس نے بیل کے بچے کو سارا دن کندھے پر گھمانے سے اس سفر کا آغاز کیا تھا۔ تب شاید لوگ اس پر ہنستے ہوں گے۔ روزانہ بیل کے بچھڑے کو کندھے پر بٹھا کر گھومنے والے مائیلو کی طاقت بیل کے بچے کی بڑھتی جسامت کے ساتھ بڑھتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ اب یہ بات دیکھنے والوں کے لیے حیرت کے دور میں داخل ہوگئی۔ مائیلو اب اس جسامت کا بیل لیکر گھوم رہا ہوتا تھا جس کا دوسرا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ مایوسی اپنی صلاحیت اپنی طاقت اور اپنا مقام کسی ایسے فرد کے ساتھ تولنے میں ملتی ہے جس کے ماضی کے سفر سے ہم آگاہ نہ ہوں۔ آپ بھی یہ سفر کسی بھی وقت شروع کر سکتے ہیں، لیکن آج کے اس مقام کے لیے شروعات کا یہ سفر شرط ہے۔ علمی میدان میں پہلوان بننے کے لیے صرف ایک ہی شرط ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنے سفر کا آغاز کر دیجیے۔ کسی کو ہرانے کے لیے نہیں بلکہ علم کے سمندر سے سیراب ہونے کے لیے۔ جتنا گہرا غوطہ اتنا سُچا موتی۔

میں بہت طویل عرصے سے اس سوچ میں غرق ہوں کہ کیا علمائے کرام اپنے علم سے اندھیرے دلوں کو روشن کرنے میں کامیاب بھی ہو رہے ہیں؟۔ جس دعوت کے یہ داعی ہیں کیا اسے عام انسانوں کے دلوں میں اس طرح اتارنے میں کامیاب ہو رہے ہیں جس طرح اس کا حق ہے۔ لیکن یہ بات سچ ہے کہ مجھے اب تک اپنے آپ سے اس بات کا ایسا جواب نہیں مل سکا جو میرے دل کو مطمئن کر سکے۔

آج کل تو الیکٹرونک میڈیا کا زمانہ ہے۔ اس کا سہارا لیکر کئی نام ور علما اپنے اپنے انداز میں کئی کئی گھنٹے اپنی باتوں اور خطابات کے ذریعے اس بات کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں کہ وہ لوگوں تک اسلامی احکامات کو درست طریقے سے سننے والوں تک پہنچا سکیں۔ تمام عالم نہایت خوبصورت ہال، جو بہت شاندار انداز میں ڈیکوریٹڈ اشیا سے مزین کیا ہوا ہوتا ہے، سامعین کے لیے آرام دہ نشستیں بہت ترتیب کے ساتھ، تا بہ حدِ گنجائش لگی ہوئی ہوتی ہیں، اسٹیج پر ایک ایسا مائک لگا دیا جاتا ہے جو مقرر کی آواز کو نہایت مناسب انداز میں ہر سامع تک پہنچا سکے، اس اہتمام کے بعد کہیں عالم کا نمبر آتا ہے کہ وہ کھچا کھچ بھرے ہال میں اپنی بات سامعین تک پہنچائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مقرر جس موضوع کو لے کر چلتا ہے اس پر اختتامِ تقریر تک نہ صرف قائم رہتا ہے بلکہ اس کا ایک ایک لفظ علم و دانش سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ لوگوں کا عالم بھی قابل ِ دید اور داد دیکھا گیا ہے۔ پورے ہال میں کسی قسم کی کوئی ہلچل نظر نہیں آ رہی ہوتی۔ لوگ نہایت خاموشی کے ساتھ مقرر کی تقریر سن رہے ہوتے ہیں۔ خاموشی کا عالم یہ ہوتا ہے کہ اگر مقرر کی آواز ہال میں نہ گونج رہی ہو تو پن گرنے تک کی آواز پورے ہال میں صاف سنائی دے سکتی ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود بھی ایمانداری کی بات یہ ہے کہ مجلس کے اختتام پر اگر لوگوں سے پوچھا جائے کہ آپ نے کیا سنا تو 99 فی صد افراد یہی کہتے ہوئے ملیں گے کہ یہ تو ہمیں یاد نہیں البتہ عالم دین نے پوری مجلس لوٹ لی تھی۔

ایسا کیوں ہوتا ہے۔ گھنٹوں کے خطابات کے باوجود بھی لوگ دین اور اس کے تقاضوں سے اتنے بے بہرہ کیوں ہیں۔ بیسیوں چینلوں پر بہت سارے علما کی مسلسل تبلیغ کا اثر دیکھنے میں کیوں نہیں آ رہا۔ یہاں تک کہ ایک بہت بڑی تعداد ان مسلمانوں کی ہے جو اسلام کے بنیادی تقاضوں تک سے نا قاقف ہے؟۔ بہت سیدھی سی بات یہ ہے کہ کوئی بچہ پڑھا لکھا پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ ایک تدریج سے اس کا دماغ ارتقائی مراحل طے کرتا ہے۔ ہر وہ بچہ جو پہلے پہل اسکول لائف میں قدم رکھتا ہے وہ اپنی تعلیم کا آغاز ’’الف ب‘‘ سے کرتا ہے۔ پھر دو حرفی سہ حرفی الفاظ سمجھنے، سنانے اور لکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ جوں جوں وہ عمر اور تعلیم کے مدارج طے کرتا جاتا ہے، وہ بچہ بولنے، لکھنے اور پڑھنے سے لیکر اعلیٰ تعلیم تک کے سارے مراحل طے کرتا چلا جاتا ہے۔ ثابت ہوا کہ آپ کبھی ایک نہایت وزنی بیل کو اپنے کاندھوں پر نہیں اٹھا سکتے لیکن اگر اسی بیل کو اس کی پیدائش کے بعد سے لیکر ایک بھاری بھرکم بیل بننے تک ہر روز اٹھا اٹھا کر چلتے رہیں تو اس کے بڑھتی ہوئی جسامت کے ساتھ آپ کی جسمانی قوت اور طاقت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔

میدان کوئی سا بھی ہو، اس میں اترنے کی تیاری نقطہ آغاز سے آخری حدِ مہارت تک کی ساری مشقتیں مانگتی ہے تب کہیں جاکر کوئی انسان کامل بنتا ہے۔ علمائے کرام کی مسلسل کوششوں کے باوجود اگر لوگ اسلام کی حقیقتوں سے کما حقہ واقف نہیں تو مری سمجھ کے مطابق اس کی وجہ یہی ہے کہ حاضرین مجلس درجہ بدرجہ منازل طے کرتے ہوئے وہاں تک نہیں پہنچے ہوئے ہوتے جہاں سے ایک عالم اپنے علم کے زورِ بیان کا آغاز کر رہا ہوتا ہے۔ اگر ایک طالب ِ علم براہِ راست کسی بڑی کلاس کا امتحان نہیں دے سکتا تو اسلام کا ادراک کوئی ہنسی مذاق نہیں۔

عام لوگوں تک اسلام کی بات پہنچانے کا نیک عمل اپنی جگہ لیکن یہ بات بہت ضروری ہے کہ ایسی درس گاہیں تعمیر کی جائیں جہاں اسلام کو ٹھیک اسی طرح پڑھایا جائے جیسے وہ مدارس جو دنیوی تعلیم کو افراد کے اذہان میں درجہ بدرجہ منتقل کیا کرتے ہیں۔ اپنی تمام توانائیاں ایک ہجوم اکھٹا کرکے، بڑی دقیق دقیق باتیں اور فلسفے بگھارنے کی جائے اگر مختصر مختصر بیان میں لوگوں تک پہنچائیں تو وہ عام انسانوں کے سمجھ میں بھی آ جائیں گی اور انہیں یاد بھی رہیں گی۔ یاد رہے کہ پیغمبر آخری الزماں نے وہ خطبہ جو حجۃ الودع کے موقع پر دیا تھا، بصد مشکل تیس پینتیس جملوں پر مشتمل تھا۔ لہٰذا بہت لمبی، دقیق، علمیت سے لبریز اور طویل تقاریر کے بجائے، عام فہم، سادہ، اور اختصار کے ساتھ لوگوں تک پہنچایا جائے تو میرے نزدیک وہ ایک بہتر طریقہ ہے جس سے خود نمائی اور قابیت کا لوہا منوانے جیسا تاثر بھی ختم ہوگا اور عام لوگ ان باتوں کو یاد بھی رکھ سکیں گے۔

اس میں ایک اہم ترین بات جو میں مزید کہنا چاہوں گا، یہ ہے کہ اسلام سادگی کا درس دیتا ہے۔ پیغمبروں تک نے لش پش ہالوں میں بیٹھ کر درس و تدریس کا کام نہیں کیا۔ کسی نے پہاڑیوں کی بلندی پر چڑھ کر اپنی نبوت کا اعلان کیا اورکوئی حاکم وقت کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ پھر خواہ دین چھا ہی کیوں نہ گیا ہو، مساجد کے فرش یا ممبر، درس و تدریس کی آماج گاہیں بنے۔ لاکھوں کروڑوں کے ڈیکوریشن پیسز، ٹھنڈے ہالوں، قیمتی نشستوں، اعلیٰ جبا و قبا زیب ِ تن کرکے ہم کس کی سنت کی پیروی کر رہے ہیں۔ یہ وہ سب باتیں ہیں جن کا خیال رکھنا میرے نزدیک بہت ضروری ہے کیونکہ ہم جس کے لائے ہوئے دین کی بلاغت چاہتے ہیں اسی کی سنتوں کے مطابق ہی عمل کرکے اسلامی تعلیمات کو عام کر سکتے ہیں۔ اللہ مجھے اور آپ کو حق بات کہنے، سننے اور اس پر سنت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)۔