سیر و سیاحت کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں

793

انسانی زندگی میں سیر و سیاحت انتہائی ضروری ہے۔ خصوصاً آج کل کی انتہائی تیز رفتار و مصروف ترین زندگی میں چند لمحوں کا بریک ٹانک کا کام کرتا ہے۔ انسان کو روز مرہ کی فارمل لائف سے چند لمحوں یا دنوں کے لیے نان فارمل زندگی گزارنے کے لیے ضرور وقت نکالنا چاہیے۔ بعض لوگ تو کہتے ہیں سال میں کم از کم دو بار تمام کام کاج چھوڑ چھاڑ کر کسی صحت افزاء مقام پر چند دن ضرور گزارنے چاہئیں۔ اس سے انسان بہت کچھ سیکھتا بھی ہے اور سال بھر کے لیے تازہ دم بھی ہو جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو لوگ سالانہ سیر و سیاحت کے لیے اپنے گھریلو بجٹ میں باقاعدہ حصہ رکھتے ہیں۔ اور ہر سال کہیں نہ کہیں سیر و سیاحت کرنے ضرور نکل جاتے ہیں۔ سیر و سیاحت کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اکثر ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے ورکرز کی چھٹیوں کا باقاعدہ حساب رکھتی ہیں اور جو ورکر چھٹیوں پر کام کو ترجیح دے اسے زبردستی چھٹیوں پر بھیج دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں گھومنے پھرنے یعنی سیر و سیاحت کے جتنے مقام ہیں شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں ہوں۔ یہاں برف پوش و سر سبز پہاڑوں، ریگستانوں، صحراؤں، میدانوں، کھیت کھلیانوں، سمندروں، ندی نالوں، دریاؤں و چشموں سمیت قدرت کا ہر رنگ ہر مقام موجود ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں گھومنے پھرنے یعنی سیر و سیاحت کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے۔ بہت قلیل تعداد میں لوگ ہر سال سیر و سیاحت کے لیے نکلتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے وطن کے بہت کم لوگ ایسے ہیں جو شاید زندگی میں ایک بار ہی سیاحت کے لیے نکل سکے ہوں۔ البتہ ہماری آبادی کی ایک بڑی تعداد مستنصر حسین تارڑ کے سفر ناموں کو پڑھ کر یا لوگوں سے سیر و تفریح کی داستانیں سن کر ہی اپنی سیر و سیاحت کی خواہش ضرور پوری کر لیتی ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جنہیں سیر و سیاحت کی افادیت کا پتا ہی نہیں وہ اسے سرے سے سمجھتے ہی فضول چیز ہیں۔

ویسے مالی پریشانیوں سے نڈھال بہت سارے پاکستانی اگر بچوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر زندگی میں ایک بار گھومنے کا منصوبہ بنا ہی لیں تو ان کے لیے یہ سیر سپاٹا ٹانک کے بجائے خون چوسنے والی جونک بن جاتا ہے۔ آپ سیر و سیاحت کے ان علاقوں میں بے شمار ایسے خاندانوں کو دیکھ سکتے ہیں جن کے بچے خوب چہرے پر رونقیں سجائے اٹکھیلیاں کرتے ہوئے نظر آئیں گے جبکہ خاندان کا سربراہ دور ہی سے پہچانا جائے گا چہرہ لٹکا ہوا ذہن پیسوں کے حساب کتاب میں الجھا ہوا۔ بہرحال میرے خیال میں اس کی بڑی وجہ مالی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ پراپر گائیڈنس کا نہ ہونا بھی ہے۔

ہمارے ایک بہت ہی پیارے دوست اظہر جسیم صاحب جو ہمیشہ خوش باش رہتے ہیں اکثر سیر و سیاحت کرتے ہوئے ہی پائے جاتے ہیں انہوں نے ہمیں بھی سیر و سیاحت میں اپنے ساتھ کچھ یوں شامل کر لیا ہے کہ جہاں جاتے ہیں اس سفر کی روداد بڑے ہی شاندار طریقے سے سوشل میڈیا کی زینت بنا دیتے ہیں جسے پڑھ پڑھ کر ہم بھی اپنے آپ کو ان کا ہمسفر ہی سمجھنے لگتے ہیں۔ ہمارے ایک اور مشترکہ دوست یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اظہر بھائی کا خوش و خرم رہنا ان کی سیر و سیاحت ہے۔ ان کے بقول حقیقت یہ ہے کہ دو عدد بیگمات کے اکلوتے شوہر ہمیشہ سیر و تفریح پر اکیلے ہی پائے جاتے ہیں۔ یہ اصل راز ہے ان کے خوش باش رہنے کے۔ بہرحال اس بار انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے مجھے گلیات کی سیر کروائی آئیں آپ بھی لطف اندوز ہوں امید ہے کہ یہ سیر آپ کے لیے بھی بہترین گائیڈ ثابت ہو گی۔

وہ کہتے ہیں نہ کہ جس نے لاہور نہیں ویکھیا او جمیا ہی نہیں بالکل اسی طرح جس نے ان دومقامات کی سیر نہیں کی اس نے گلیات کا اصل حسن دیکھا ہی نہیں۔۔۔ ڈونگہ گلی سے 4 کلومیٹر لمبا ایک واکنگ ٹریک شروع ہوتا ہے جو ڈونگا گلی کو ایوبیہ سے ملاتا ہے یہ واکنگ ٹریک مختلف ناموں سے مشہور ہے۔ جن میں ڈونگا گلی ٹریک، ایوبیہ نیشنل پارک ٹریک، پائن لائن ٹریک، واٹر پائپ لائن ٹریک شامل ہیں۔ قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے 4 کلومیٹر طویل اس ٹریک کو مکمل کرنے میں عموماً ایک گھنٹہ درکار ہوتا ہے۔ جو لوگ اس ٹریک کی سیر کو جاتے ہیں وہ واپس آ کر اس کی خوبصورتی بیان کرنے میں اپنا پورا زور لگا دیتے ہیں مگر حقیقت تو یہی ہے کہ یہ ٹریک اس قدر خوبصورت ہے کہ الفاظ اس کا احاطہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور یہ بات وہی جان سکتے ہیں جو جنگلی پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو اور تازہ ہوا کے خنک جھونکوں میں پہاڑوں سے اترتی کسی شریر ندی کی مانند بل کھاتے اس ٹریک پر چہل قدمی کر چکے ہوں یہاں کی فضا اس قدر خالص ہے کہ میدانی علاقوں میں بمشکل 1 کلومیٹر پیدل چل کر تھک جانے والے لوگ باآسانی 4 کلومیٹر کا سفر طے کر لیتے ہیں اور ان کو تھکن کا احساس تک نہیں ہوتا یہ چار کلو میٹر کا ٹریک بلکہ ہموار ہے اور دنیا کے چند خوبصورت ٹریک میں سے ایک ہے اس ٹریک کے اختتام پر موٹو ٹنل ہے آئیے اس ٹنل کا تعارف بھی آپ سے کرواتے چلیں۔۔۔

یہ ذکر ہے کہ لگ بھگ 130 سال پہلے کا جب برصغیر پاک و ہند پر برطانوی راج تھا۔ اس دور میں ہزارہ ڈویژن کے پْرفضا مقام ایوبیہ اور ڈونگا گلی کے درمیان ایک سرنگ بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی اور اس پر فوری عمل درآمد بھی کیا گیا۔ اس سرنگ کی تعمیر 1891 میں مکمل ہوئی اور یہ سرنگ ایک طویل عرصے تک فعال رہی اور اس سے برطانوی فوجی اہلکار مستفید ہوتے رہے۔ تاہم چند دہائیوں پہلے یہ سرنگ عدم توجہی کی وجہ سے بند ہو گئی تھی اور ایک طرح سے اس پر کچرے کا ڈھیر ڈال دیا گیا تھا مگر اب یہ سرنگ اپنی بھرپور خوبصورتی کے ساتھ بحال کر دی گئی ہے۔