قوم بے حسی کی آخری حد پر

860

ایک بُوڑھے شیخ کو اپنا ایک مُرغا بہت پیارا تھا۔ اچانک ایک دِن وہ چوری ہو گیا۔ اُس نے اپنے نوکر چاکر بھگائے، پورا قبیلہ چھان مارا مگر مُرغا نہیں مِلا۔ مُلازموں نے کہا کہ مُرغے کو کوئی جانور کھا گیا ہو گا۔ بُوڑھے شیخ نے مُرغے کے پر اور کھال ڈھونڈنے کا حُکم دِیا۔ مُلازم حیران ہو کر ڈھونڈنے نِکل پڑے مگر بے سُود۔ شیخ نے ایک اونٹ ذِبح کِیا اور پورے قبیلے کے عمائدین کی دعوت کر ڈالی۔ جب وہ کھانے سے فارغ ہُوئے تو شیخ نے اُن سے اپنا مُرغا گُم ہونے کے بارے میں ذِکر کِیا اور اُن سے اُسے ڈُھونڈھنے میں مدد کی درخواست کی۔ کُچھ زیرِ لب مُسکرائے، کُچھ نے بُوڑھے کو خبطی سمجھا مگر وعدہ کِیا کہ کوشش کریں گے۔ باہر نِکل کر مُرغے کی تلاش پر اُونٹ ذِبح کرنے پر خوب گپ شپ ہُوئی۔ کُچھ دِن بعد قبیلہ سے بکری چوری ہُو گئی۔ غریب آدمی کی تھی، وہ ڈھونڈ ڈھانڈ کر خاموش ہو گیا۔ شیخ کے عِلم میں جب یہ بات آئی تو اُس نے پِھر ایک اونٹ ذِبح کِیا اور دعوت کر ڈالی۔ جب لوگ کھانے سے فارغ ہُوئے تو اس نے پِھر مُرغے کی تلاش اور بکری کا قِصہ چھیڑا اور قبیلے سے کہا کہ اُس کا مُرغا ڈھونڈ دیں۔ اب تو کُچھ نے اُسے بُرا بھلا کہا۔ کُچھ نے اُسے دِلاسہ دِیا کہ اِتنی بڑی بات نہیں، صبر کر لو اِس سے زیادہ اپنا نُقصان کر چُکے ہو۔ ابھی تین دِن ہی گُزرے تھے کہ ایک اور شیخ کا اونٹ رات کو اُس کے گھر کے سامنے سے چوری ہو گیا۔ اُس شیخ نے اپنے مُلازمین کو خوب بُرا بھلا کہا اور خاموش ہو گیا کہ ایک اونٹ اُس کے لیے کوئی مالی وُقعت نہی رکھتا تھا۔ بُوڑھے شیخ کو جب عِلم ہُوا تو اُس نے پِھر ایک اونٹ ذِبح کِیا اور قبیلے کی دعوت کر دی۔ سب کھانے سے جب فارغ ہُوئے تو اُس نے سرسری اونٹ گُم ہونے کا ذِکر کر کے اپنے مُرغے کو یادکیا اور قبیلے سے اِلتجا کی کہ اُس کا مُرغا ڈھونڈ دیں۔ اب تو محفل میں خوب گرما گرمی ہُوئی اور بُوڑھے سے کہا گیا کہ اب اگر دوبارہ اُس نے مُرغے سے متعلق کوئی بات کی تو پورا قبیلہ اُس سے قطع تعلق کر لے گا۔ شیخ کے بیٹوں نے بھی باپ کی اِس حرکت پر مہمانوں کو رُخصت کرتے ہُوئے معذرت خواہانہ روّیہ اِختیار کِیا اور شرمِندہ بھی ہُوئے کہ ایک مُرغے کے بدلے تین اونٹ اور شرمِندگی علیحدہ۔ انہوں نے سوچا کہ یقینا اُن کا باپ اب سٹھیا گیا ہے۔ پندرہ روز گُزرے تو قبیلے کی ایک لڑکی کُنویں سے پانی بھرنے گئی اور پِھر واپس نہیں آئی۔ گائوں میں کُہرام مچ گیا۔ پُورے قبیلے کی عِزت داو پر لگ گئی۔ نوجوانوں نے جھتے بنائے اور تلاش شُروع کی۔ پہلے گائوں پِھر اِردگِرد پِھر مزید گائوں کے لوگ شامِل ہُوئے اور ارد گرد کے گائوں سے معلومات کی گئیں تو پتا چلا کہ ڈاکو قریب کے پہاڑ کے ایک غار میں کُچھ عرصے سے رہ رہے ہیں۔ گائوں کے لوگوں نے چھاپا مارا۔ وہاں لڑائی ہُوئی، اموات ہُوئیں اور لڑکی برآمد کر لی گئی۔ لوگوں نے وہاں اونٹ، بکری اور مُرغے کی باقیات بھی ڈھونڈ لیں۔ تب اُنہیں اِحساس ہُوا کہ بُوڑھا شیخ کِس طُوفان کے آنے کا اُنہیں عِندیہ دے رہا تھا۔ اگر گاؤں کے لوگ مُرغے پر ہی مُتحد ہو جاتے تو آبرو تک بات نہ پہنچتی۔
پاکستان 14 1گست 1947 میں وجود میں آیا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کا وجود میں آنا کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ اس کو بنانے کے لیے پاکستان بننے سے بہت پہلے اور وجود میں آنے کے بعد تک مسلمانوں نے جان و مال کی بڑی قربانیاں دی تھیں۔ پھر ہوا یہ کہ 1958 کو اس پاکستان کو ایک ایسے ادارے نے اپنے قبضے میں لے لیا جس کے خون کا ایک قطرہ تک پاکستان کی بنیادو میں شامل نہیں۔ پاکستان کی پوری تاریخ میں کوئی ایک استعفا بھی ایسا نہیں جو کسی کی جانب سے برطانوی حکومت کے منہ پر مارا گیا ہو۔ اس زمانے کے جوانوں اور آج کل کے بے شمار بوڑھوں نے اپنی جوانی سے لیکر خالقِ حقیقی کے پاس لوٹ جانے تک متعدد بار اس جانب قوم کو توجہ دلائی کہ ایک عظیم قربانی کے بعد جو آزادی ملی تھی وہ چھین لی گئی ہے لیکن قوم اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی طور تیار نہیں ہوئی۔ 1971 میں پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد موجودہ پاکستانیوں کو ایک مرتبہ پھر آزادی کا سانس لینے کا موقع ملا لیکن ایک مرتبہ پھر شب خون مار دیا گیا۔ اس وقت تک موجودہ پاکستانی بھی کئی گروہوں میں بٹ چکے تھے جس کے نتیجے میں ایک واضح اکثریت نے دوبارہ غلام بن جانے پر خوب خوب مٹھائیاں بانٹیں۔ پھر یہ قوم غلامی کی ایسی عادی ہو گئی کہ بار بار مٹھائیوں پر مٹھائیاں تقسیم بھی ہوتی گئیں اور کھائی بھی جاتی رہیں۔ بوڑھے پاکستانی بار بار اس پاداش میں سزائیں بھگتے رہے کہ وہ مرغا چوری ہوجانے کی جانب اشارہ کیوں کرتے ہیں۔ آج کل نوبت بہو بیٹیوں کی عزت و آبرو تک آ پہنچی ہے لیکن غلامی کے عادیوں کو اس سے کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ اگر قوم نے 1958 کی قبضہ مافیا سے نمٹ لینے کا فیصلہ کر لیا ہوتا تو بنگلا دیش یا ترکیہ کی طرح مافیا کبھی ایک آزاد ملک کو بار بار غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی تھی۔ بڑے بوڑھوں کی توجہ دلانے کے باوجود قبیلے والوں اور اس کی اولاد نے بجائے بات کی تہہ تک اترنے کی بوڑھوں کو سٹھیا جانے کا طعنہ دیا یہاں تک کہ نوبت عزت و آبرو تک جا پہنچی۔ قبیلے والے تو پھر بھی ایک لڑکی کی عزت و عصمت کا سن کر غیرت میں آ گئے تھے اور انہوں نے ڈاکوؤں کو قتل کر دیا تھا لیکن وہ ملک جو بنایا ہی عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے تھا وہاں تو ایک ایک منٹ کے بعد کسی نہ کسی کے بے آبرو ہونے کی خبریں سنائی دینے کے باوجود بھی کسی کی شرم و حیا و غیرت جاگنے میں نہیں آ رہی۔