مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ

602

اب تو مئی اپنے اختتام پہ ہے نصف سے زیادہ بیت چکا مگر بڑی یادیں ہیں مئی کی اس شہر مظلوم سے جڑی ہوئی جس کے لیے اوائل عمری سے سنتے آرہے ہیں کہ
مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ
ظاہر ہے یہ ایک معمول کی بات ہے موسم گرما کی اتنی شدت اس ماہ ہر برس ہوتی ہے۔ اس میں نیا کیا ہے؟؟ مگر یہ دہکتا مہینہ شہرکراچی میں پسینے کے ساتھ چوٹی سے ایڑی تک خون بہاتی تاریخیں رقم کرچکا ہے لگتا تھا درندے سڑکوں سے گلی کوچوں تک نکل آئے اور کوئی روکنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا مئی کی 7تاریخ تو حال کی بات ہے فرعونیت، فسطائیت، اور ریاستی جبر سے نہتے ووٹرز اور پرامن سیاسی کارکنوں پہ حملہ انتظامی مشینری کو یرغمال بناکر یا خرید کر جعلی ووٹوں سے ڈبے بھرنا بالکل ابھی کی خبر ہے بھاری اکثریت سے جیتے ہوئے گروہ کو بدترین شکست سے دوچار کرنا تشدد کے سوا اور کیسے ممکن ہوسکتا تھا۔ وڈیرے کراچی کے شہریوں کو فتح کررہے تھے سب گواہ ہیں اس لطیفے پہ وہ متعصب وڈیرے اور ان کے مشیر وزیر جنہوں نے اپنے ووٹرز حالیہ سیلاب میں ڈبودیے ان کو تو سندھ کے ہاری اور کمی بھی ووٹ نہیں دیتے مگر کیا کریں وہ جدی پشتی غلام گردشوں کی چکی میں پستے لوگ ہیں مگر کراچی کے لوگ کٹتے مرتے گھسٹتے اب بیدار ہوچکے ہیں سو انہوں نے پوری طاقت سے ظالم جاگیرداروں کو رد کیا جدوجہد انصاف اور حق کے نشان کو ووٹ دیے مگر جگہ جگہ دن سے ہی دھونس دھاندلی شروع ہوئی اور گنتی کے وقت تو شب خون مارا گیا سریے ڈنڈے اور فائر کے ذریعے کتنے نہتے سرگرم کارکنوں کو زخمی کیا گیا یہ ایک بڑے بھاری مینڈیٹ پہ ڈاکے کی رات تھی جس کا آغاز دن کے اجالے سے ہوگیا تھا منتخب نمائندے اور مئیر کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن جب الیکشن کمیشن کے آفس پہنچے تو فائرنگ شروع کردی۔
خون بہاتا یہ مئی پہلا تو نہیں تھا اس سے پہلے شہر کی سڑکوں اور پولنگ اسٹیشنوں نے 11مئی 2013 کی دہشت گردی اور دھاندلی دیکھی، عملے کے لوگوں نے سرعام بیلٹ پیپر کی گڈی پہ ٹھپے لگانے کا اعتراف بے شرمی کے ساتھ کیا یہ اس فرعونی قبیلے کے منظور نظر مفاہمتی قلابازوں کی دہشت گردی تھی جس کے باعث بائیکاٹ کا فیصلہ کرنا پڑا یہ مقابلے کیے بناء جیت کے نشے کا اظہار تھا۔ جمہوریت ایسے چناؤ کو بدترین شہنشاہیت کہتی ہے۔
واہ بادشاہو! شراب کی بوتل پہ شہد کا لیبل لگانے کی بھی حد ہے پھر تھوڑا پیچھے مڑکر ایک اور مئی کو دیکھیں یہ پسینے کے ساتھ خون بہنے کی سچی کہانی ایک امر کی چھتری تلے اس کے پالتو لسانی دہشت گردوں کے ہاتھوں درندگی کا دہکتا دن چیف جسٹس کی کراچی آمد پہ رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تب اس وقت کے ایک وفاقی وزیر نے ایک روز پہلے ہی دھمکاتے ہوئے کہا تھا کورٹ کا معاملہ روڈ پہ لاؤ گے تو روڈ پہ ہی نمٹیں گے ایک نااہل شخص صوبائی وزیر تھا جس نے مجرموں کے ہاتھوں اسلحہ دے کر سڑکوں پہ خون بہانے کا لائسنس عطاکیا تھا ساٹھ سے زیادہ لوگ بھڑ بکری کی طرح مارے گئے چینلوں پہ آمرانہ حملے ہوتے رہے جو میڈیا نے بھی دکھائے اور آج 15 برس گزرنے کے باوجود یہ قتل کے مقدمات فیصل نہ ہوسکے یہاں انصاف سے قاتل بڑا ہے۔ اور اس سے پہلے ایک اور بارہ مئی گزرا 2004 کا خونیں مئی یہ ضمنی الیکشن کا دن تھا فیڈرل بی ایریا لیاقت آباد عائشہ منزل اور اس سے ملحقہ علاقے تھے یہاں دھاندلی دہشت گردی اور آمرانہ جبر کی چھتری تلے ہوئی سراج الدولہ کالج جو بعد میں ٹارچر سیل بنادیا گیا کھلے عام حکومتی عملہ ٹھپے لگاتا گیا ہم ووٹ دینے گئے تو پتا چلا کئی افراد ہمارا ووٹ ڈال چکے۔
نیتا کی شان دیکھ اُسے ووٹ یوں ملے
مردے نکل کے آگئے ہوں جیسے مزار سے
سوچا چلو نکلے ہیں تو بفرزون وغیرہ تک کچھ کام نمٹاتے چلیں واپسی تک متعلقہ علاقے میں ایم ایم اے کے کیمپ اُلٹے پڑے تھے ہرطرف چیخ وپکار اور بھگدڑ مچی تھی جیسے تیسے گھر پہنچے رات تک بارہ افراد کی شہادتوں کی خبر آگئی یہ جماعت اسلامی کے کارکنان کو خون میں نہلانے کی سفاکانہ خبر تھی حق پرستی کے جھوٹے لیبل لگا کر۔ خون آشام باطل رزم آرا تھا جانے کتنے زخمی ہوئے تھے پرائیویٹ اسپتال پولیس کیس کہہ کر زخمیوں کے علاج سے انکار کرتے اور گورنمنٹ اسپتال قاتلوں کے ہرکارے بنے رہے کیا جنگ کا سماں تھا؟ ان شہدا کا جرم حق کی خاطر باطل کے آڑے آنا تھا مگر
ایسے ناداں بھی نہ تھے جاں سے گزرنے والے
ناصحو پند گرو راہ گزر تو دیکھو
مجھے یقین ہے کہ ان قیمتی لوگوں کا ہرقطرۂ خون رنگ لایا ہے ایک برف پگھلی ہے تین سال سے حق دو کراچی کو کی مہم آج پورے شہر کے ہر طبقے کی آواز بن گئی ہے مردوزن پیرو جواں کی مسلسل ان تھک محنتیں رائیگاں نہیں گئیں: شہر مظلوم کی ٹوٹی ہوئی سڑکیں، کچرے کے پہاڑ جیسے ڈھیر، تعفن پھیلاتا سیوریج سسٹم اور گلیوں میں خوں خوار کتوں کی بہتات اور اس پہ ستم بالائے ستم ان موذی جانوروں کو مارنے پہ پابندی لگانا گویا رحم انسانوں پہ نہیں قاتل کتوں پہ آتا رہا لوگ مرتے رہے کیا شیطانیت ہے اور کیا کراچی اور سندھ دشمنی بہرحال یہ تلخ حقائق آخر کب تک سلائے رکھتے ہرطبقے ہر فرقے اور ہر علاقے کے لوگ ایک جھنڈے تلے جمع ہوتے گئے حافظ نعیم الرحمن نے محنت خلوص استقامت اور رواداری سے دلوں کو فتح کیا اور کورونا سے سیلاب تک سب نے الخدمت کی انسان دوستی دیکھی بے پناہ دیکھی پھر دوران سیلاب ریسکیو نے کیسے جان خطرے میں ڈال کر جانی۔ بچائیں لگتا تھا زمیں پہ ملائکہ اتر آئے اور کیسے وڈیروں اور ان کے مشیروں وزیروں نے اپنے نعرہ زن غلاموں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا یہ زیادہ پرانی بات تو نہیں کہ بھلادی جائے یہ ظالم کو للکارنے والے زبان حال سے کہہ رہے ہیں
ہم نے ان پہ کیا حرف حق سنگ زن
جن کی ہیبت سے دنیا لرزتی رہی
جن پہ آنسو بہانے کو کوئی نہ تھا
اپنی آنکھ ان کے غم میں برستی رہی
خوں چکاں دہر کا خوں چکاں آئینہ
دکھ بھری خلق کا دکھ بھرا دل ہیں ہم
تباہیوں اور محرومیوں نے انسانوں کو بیدار کردیا ہے اور شعور کی واپسی ممکن ہوئی جیسے شہر بیمار کو اک مسیحا مل گیا۔ باصلاحیت اور زیرک رہنما اور مخلص اور جانفشاں ٹیم طوفانی بارشوں چٹان بن کر کھڑے رہنے والے افراد اور اب مئی نصف سے زیادہ جاچکا تشدد کی 7 تاریخ دیکھ کر سب سامنے ہے اب بھی ظالم دھاندلی پہ اڑے ہوئے ہیں اس لیے کہ مافیائوں پہ زد پڑے گی آج پھر لشکر حسینی نے یزید کے تیروں سے زخم کھائے یہ کربلا کے وارث ہیں جو ملوکیت کے خلاف سینہ سپر رہے انکار کی قوت کتنی کمزور کیسی نہتی ہو صداقت سے ہم آہنگ ہوتو ایک سرمایہ ہے یہ بیدار شہر ہے نشییوں کی اوطاق نہیں۔
مئی کے ایڑی سے چوٹی تک پسینے کے ساتھ خون بہاتی کئی تاریخوں کے سلسلے ہیں بے شک بیداری اور شعور کی واپسی نے خون کا خراج لیا ہے اگرچہ ابھی تعمیر نو کی جدوجہد اور محنتیں بہت ہیں مگر اس مئی کے سورج میں شب غلامی سے نجات کا رنگ ہی کچھ اور ہے۔
یہ شب کی آخری ساعت گراں کیسی بھی ہو ہمدم
جو اس ساعت میں پنہاں ہے اجالا ہم بھی دیکھیں گے
یہ امید صبح نو زندہ رہے گی یہ شہر اپنا حق لے کے رہے گا۔ ان شاء اللہ