مولانا فضل الرحمن کا عدلیہ کیخلاف احتجاج ناقابلِ فہم ہے، پروفیسر ابراہیم

438

پشاور: امیر جماعت اسلامی خیبرپختونخوا پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا عدلیہ کے خلاف احتجاج کا اعلان ناقابلِ فہم ہے۔

بنوں میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم حکومت کا حصہ ہیں، انہیں ریاست کے دوسرے ستون کے خلاف احتجاج کرنا ہے تو حکومت سے نکل کر اپوزیشن میں بیٹھ جائیں۔ ملک کی مجموعی صورتحال پریشان کن اور تشویش ناک ہے، ریاست کے ادارے آپس میں باہم ٹکراؤ کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 2 صوبوں میں الگ سے انتخابات ملک اور قوم کے لیے بہتر نہیں ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی تجویز کہ انتخابات کے لیے اگست کے پہلے ہفتے کی کوئی تاریخ رکھی جانے پر متفق ہوں اور پورے ملک میں ایک ہی دن انتخابات ہوں تو یہ ملک و قوم کے لیے بہتر ہوگا اور اخراجات میں بھی کمی ہوگی۔

پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ اس وقت عمران خان کی گرفتاری مناسب نہیں تھی، حکومت کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ پی ٹی آئی کارکنوں کے فوج، چھانیوں اور قومی املاک پر حملے اور فوج کے خلاف بیانات بھی مناسب نہیں تھے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو چور چور کہہ رہی ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ہی ایک دوسرے کے حوالے سے سچ بول رہے ہیں۔

پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا کہ عمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیا، جس سے حالات بگڑ گئے۔ گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کارکنوں کا ردعمل بھی انتہائی نامناسب تھا۔ دونوں اطراف سے شدید بے قاعدگیاں ہو رہی ہیں۔ سیاسی رہنما پہلے بھی گرفتار ہوتے رہے ہیں لیکن ان پر اس طرح کے ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔

انہوں نے حکومت سے سوال کیا کہ اپوزیشن کی جانب سے احتجاج پر قومی شاہراہیں اور انٹرنیٹ بند کرنا اور اپنا سارا نظام تلپٹ کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟۔ پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ حکومت نے انتہائی عاقبت نا اندیشی کا مظاہرہ کیا ہے۔ تمام اطراف کو عقل اور ہوش کے ناخن لینے چاہییں۔

امیر جماعت نے مزید کہا کہ پورے ملک میں ایک ہی دن انتخابات کے لیے اپوزیشن اور حکومت مذاکرات کریں اور انتخابات تک صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔ عوام کو اختیار دیا جائے کہ وہ کسے ووٹ دیتے ہیں ایک ہی دن انتخابات پر اتفاق سے ملک اور قومی آئینی، قانونی اور سیاسی بحران سے نکل سکتے ہیں۔